Maktaba Wahhabi

239 - 668
زیادتی کی گئی۔ (سورۃ البقرۃ، رکوع: ۲۳) آیات کے تفسیری ترجمے پر سر سری نظر ڈالنے سے فطرتی اور میزانِ عدل پر تلی ہوئی تعلیم ثابت ہوتی ہے۔ ظالم وہ لوگ ہیں جو چھیڑ خانی، فساد اور لڑائی پہلے برپا کرتے ہیں ، مظلوم وہ لوگ ہیں جن پر ظالم کا ظلم وارد ہو۔ اگر مظلوم طاقت اور موقع پا کر اپنا ایمان، جان، مال اور عزت وغیرہ بچانے کے لیے ظالم کی شرارت کو دفع کرتے ہوئے اس کے حملے کو انتقامی صورت میں پسپا کر دیں ۔ اسے اس قدر نقصان اور تکلیف پہنچائیں جس قدر اس کی طرف سے پہنچایا گیا، کیونکہ ظالم کا زیادہ نقصان کرنے سے مظلوم بھی ظالم بن جاتا ہے۔ اگر ایسے کفار جو ظلم، فساد، جنگ اور لڑائی سے مسلمانوں کو اسلام چھڑا کر کفر پر مجبور کرنے کے لیے ابتدا کرتے ہیں تو اہلِ اسلام کو بھی حق حاصل ہے کہ ایسے ظالموں سے ظلم اور کفر چھڑا کر اسلام قبول کرنے پر مجبور کریں ۔ ورنہ ایسے ظالموں کو جہاں پائیں قتل کر ڈالیں ، تا کہ دنیا میں ضعیف لوگ آرام سے زندگی بسر کریں ۔ یہ چیز جو انتقامی صورت میں ہے در حقیقت جبر نہیں ہے، جبر تو اس صورت میں تھا کہ مسلمانوں کی طرف سے ابتدا ہوتی، لیکن یہ اسلام کی تعلیم نہیں ہے۔ اس سے صاف ثابت ہوا کہ جو کفار فساد اور لڑائی نہ کریں ، ان سے لڑائی کی ابتدا کرنا منع ہے۔ ابتدائی فسادیوں ہی کے حق میں مندرجہ ذیل حدیث اور اس کی مثل وارد ہیں ، دوسروں کے لیے نہیں ، نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے خدا کی طرف سے لوگوں سے لڑائی کرنے کا حکم ہوا ہے، حتیٰ کہ وہ شہادت دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کرانے کا حق دار نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکاۃ دیں ، جب وہ ایسا عمل کریں گے تو مجھ سے ان کے خون اور مال محفوظ رہیں گے۔[1] (بخاری و مسلم، مشکاۃ، کتاب الایمان) یعنی اگر اسلام قبول نہیں کریں گے تو ان کی جانیں اور مال محفوظ نہ رہیں گے۔ جو لوگ لڑائی، فساد کی ابتدا نہیں کرتے، وہ اس سے مستثنیٰ اور الگ ہیں ، جیسا کہ ذمی کا مسئلہ سابقاً گزر چکا ہے۔ باوجود کافر ہونے کے ان کی جان، مال، بلکہ ہر قسم کی حفاظت اہلِ اسلام پر فرض ہے۔ اسی طرح کفار کے بوڑھے آدمی اور عورتیں باوجود کافر ہونے کے ان کو قتل کرنا منع ہے۔ علاوہ ازیں
Flag Counter