Maktaba Wahhabi

237 - 668
کیا جائے۔ اگر مخالف کی طرف سے حملے کی ابتدا ہو تو مدافعت کی صورت میں اپنا ایمان، مال، جان اور عزت بچانے کے لیے بطور بدلے کے مقابلہ کیا جائے تو یہ کوئی موردِ طعن نہیں ہے۔ سورۃ الممتحنہ کی آیت گزر چکی ہے کہ اے مسلمانو! خدا تعالیٰ تمھیں ایسے کافروں پر احسان کرنے اور ان کی دوستی سے منع کرتا ہے جنھوں نے دین کے بارے میں تمھارے ساتھ لڑائی کی اور انھوں نے تمھیں گھروں سے نکال دیا۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ جن کافروں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سخت ایذائیں دیں اور مکے سے نکال دیا، ان کے مکان اور مال و متاع پر قابض ہوئے، انھوں نے ان سے دین کے بارے میں لڑائی کا آغاز بھی کیا۔ دین کے بارے میں لڑنے کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ کفار کو دینِ اسلام سے سخت عداوت تھی، وہ چاہتے تھے کہ مسلمان دینِ اسلام کو چھوڑ کر یا تو ہماری طرح کافر ہو جائیں ، ورنہ ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔ علاوہ ازیں قرآن مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے پیش گوئی کرتا ہے کہ کفار نے اپنے اندر اگر مقابلے کی طاقت سمجھی تو تمہیں دینِ اسلام سے پھیر کر کافر بنانے کے لیے تم سے ہمیشہ جنگ وقتال کرتے رہیں گے۔ (سورۃ البقرۃ رکوع: ۲۶) اگر کفار مسلمانوں سے لڑائی کی ابتدا نہ کرتے تو قتال کو ان کی طرف منسوب نہ کیا جاتا۔ اس کے ماسوائے خدا تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو خطاب کرتا ہے کہ ایسی قوم جنھوں نے عہد و پیمان کو توڑ دیا اور مکہ سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکالنے پر ہمت خرچ کی اور انھوں نے تمہارے ساتھ چھیڑ خانی اور جنگ و قتال کرنے کی پہلے ابتدا کی۔ (سورۃ التوبۃ رکوع:۱) آیاتِ مذکورہ بالا ببانگ دہل کہہ رہی ہیں کہ اہلِ اسلام کو چھیڑ کر کفار نے جنگ وقتال کا پہلے آغاز اس لیے کیا کہ وہ بھی ہماری طرح کافر ہو جائیں یا ان کو نیست ونابود کیا جائے۔ پس مذکورہ بالا اصول کے بموجب اہلِ اسلام کو بھی حق حاصل ہے کہ اگر ان میں اتنی طاقت ہو جس سے کفار پر غلبہ ہو سکے تو وہ اپنا ایمان، مال وجان اور عزت بچاتے ہوئے مدافعانہ حملہ کرتے ہوئے ان کا ایسا مقابلہ کریں کہ وہ اسلام قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں یا ان کو تہ تیغ کر کے ہلاک کیا جائے، تا کہ مسلمانوں سے ظلم کی تلوار اٹھ جائے۔ پس اہلِ اسلام کفار کے دکھ اور مصائب سے تنگ آ کر سخت مظلوم بن گئے تو خدا تعالیٰ نے ان کو بھی مدافعانہ صورت میں جہاد وقتال کی اجازت دی۔
Flag Counter