Maktaba Wahhabi

236 - 668
کرتا ہے کہ اس کی جان ان کے شر سے محفوظ رہے۔ علاوہ ازیں اگر کوئی ظالم ڈاکو اور چور کسی انسان پر، اس کا مال اور عورت غصب کرنے کے لیے حملہ کرے تو وہ انسان اپنی طاقت کے باعث اپنے مال اور عزت کو بچانے کے لیے اسے قتل بھی کر ڈالے تو اس کے اس فعل کو پسندیدہ نظر سے دیکھا جاتا ہے، بلکہ برطانیہ کی حکومت میں ایسے لوگوں کو انعام بھی ملا کرتا تھا۔ پس ثابت ہوا کہ اپنے مال، جان اور عزت کو بچانے کے لیے ظالم دشمن کا مقابلہ کر کے اسے ہلاک کر دینا افعالِ حمیدہ میں سے ہے، اس کو ظلم اور فساد پر محمول کرنا بدبو دار نادانی نہیں تو اور کیا ہے؟! قرآنِ مجید اس فطرتی اور سنہری اصول کی تصدیق کرتا ہے۔ چنانچہ سورۃ الشوریٰ کی آیات کا خلاصہء مضمون ملاحظہ ہو: ارشادِ باری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندے وہ ہیں جن پر ظالم کی طرف سے زیادتی کی جائے تو وہ بدلہ لیتے ہیں ۔ بدلے میں ظالم جتنی تکلیف اور نقصان پہنچائے وہ بھی اس کو اسی قدر تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں ، زیادتی نہیں کرتے۔ جو مظلوم ظالم کے قصور کو معاف کر دے، اس کا اجر خدا پر ہے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔ ظالم وہ ہے جو پہلے چھیڑ خانی کر کے فساد برپا کرے اور جو شخص مظلوم ہونے کی حالت میں ظالم سے بدلہ لے، ایسے لوگوں پر خدا کی طرف سے کوئی عذاب اور مواخذے کا راستہ نہیں ہے۔ صرف عذاب اور سزا کا راستہ ایسے لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہوئے زمین میں بغیر حق کے فساد کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔ (سورۃالشوریٰ: ۳۹۔۴۲) علاوہ ازیں ایسی احادیث پائی جاتی ہیں جن میں اس مضمون کا خلاصہ ہے کہ جس قوم میں کوئی ظالم ظلم کر رہا ہو اور معصیت اور نافرمانیوں پر مصر ہو تو وہ اس کو نافرمانیوں سے نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو اس ظالم کی طرح عام عذاب میں مبتلا کر دے گا،[1] بشرطیکہ ان میں اس کو روکنے کی طاقت ہو۔ جو لوگ طاقت رکھ کر بھی ظلم کو بند نہیں کرتے، انھوں نے رضا بالظلم کا ارتکاب کیا، جس کی وجہ سے وہ ظالم ہو کر سزا کے مستحق ٹھہرے۔ اس فطرتی شرعی اصول کو، جو عقل کے عین مطابق ہے، مد نظر رکھ کر دیکھا جائے تو ذہن نشین ہو جائے گا کہ اسلامی جہاد کی بنیاد اسی پر ہے، یعنی ابتدا میں کسی پر حملہ نہ
Flag Counter