Maktaba Wahhabi

233 - 668
یہ ایک طویل قصہ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہجرت کے چھٹے سال رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہت سے مسلمانوں کو ہمراہ لے کر عمرہ کرنے کے لیے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے۔ جب حدیبیہ مقام میں پہنچے تو کفارِ مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مع صحابہ کے مکے میں داخل ہونے سے روک دیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مندرجہ ذیل شرائط پر باوجود ان سے مقابلہ کرنے کی طاقت کے ان سے صلح کر لی۔ بحالیکہ یہ شرائط بظاہر آپ کے لیے کمزوری ظاہر کرنے کے باعث مضر تھیں اور کفار کو ان کی قوت کے اظہار کے باعث مفید۔ شرطِ اوّل: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سال مکے میں داخل نہیں ہو سکتے۔ آیندہ سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی، بشرطیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے، بلکہ کسی مسلمان کے پاس تلوار کے سوا کوئی ہتھیار نہ ہو اور اس کو بھی میان سے نہ نکالا جائے اور وہ تین دن سے زیادہ مکے میں قیام نہیں کر سکتے۔ شرطِ دوم: اگر ہمارا کوئی آدمی مسلمان ہو کر آپ کے پاس چلا جائے تو اس کے مسلمان رہنے کے باوجود بھی آپ کو اسے ہماری طرف واپس کرنا لازم ہو گا۔ شرطِ سوم: اگر کوئی آدمی آپ کی طرف سے ہماری طرف آ جائے، تو ہم اس کو واپس نہیں کریں گے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے، جن میں اسلامی غیرت کازیادہ جوش تھا، ایسی کمزور شرائط کو نا پسند کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ ہم ان سے مقابلہ کرنے کی طاقت رکھنے کے باوجود ایسی کمزور شرائط کیوں تسلیم کریں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جواب میں فرمایا: اے عمر! میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں ، وہ مجھے ضائع کرنے والا نہیں ہے، یعنی یہ شرائط خدا کے حکم سے تسلیم کی گئی ہیں ۔ اگر کوئی شخص ہم سے مرتد ہو کر کفار سے جا ملا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو مسلمانوں سے نکال کر دور کر دیا، کیونکہ مسلمانوں میں مرتد کا رہنا ٹھیک نہیں ۔ [1] (صحیح بخاري مع فتح الباري، مشکاۃ، باب الصلح) اسی طرح یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واپس کیا ہوا مسلمان کفار میں جا کر اسلام کی تبلیغ
Flag Counter