Maktaba Wahhabi

88 - 668
ان میں موجود ہوں اوراللہ ان کو عذاب نہیں کرنے والا، حالانکہ وہ خدا سے بخشش مانگتے ہوں ۔‘‘ اُمت محمدیہ کے لیے خرقِ عادت عذاب سے بچنے کے لیے پہلا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود اطہر ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد عذاب رکا رہنے کی دوسری وجہ مسلمانوں کا خدا سے بخشش مانگنا ہے۔ اس سے پیشتر کی فضیلت میں ثابت کیا گیا ہے کہ تمام دنیا میں اذان اور نماز اور قرآن شریف کی تلاوت دنیا میں ہر وقت جاری ہے اور دنیا کے خرقِ عادت عذاب سے بچنے کے لیے یہ اعلیٰ ترین نعمت ہے۔ نماز میں استغفار بھی آ جاتا ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس امتِ مرحومہ پر عذاب نہیں کرتا۔ چونکہ یہ وظائف بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت عنایت کیے گئے، لہٰذا یہ بھی فضیلت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی مخصوص ہے۔ کفار کی جماعت اور خصوصاً ابوجہل نے کعبہ کا غلاف پکڑ کر یہ دعا مانگی کہ یا الٰہی اگر یہ قرآن مجید تیری طرف سے واقعی حق اور صحیح ہے تو پھر ہم پر پتھروں کا مینہ برسا یا کوئی اور درد ناک عذاب بھیج۔ [1] (بخاری، کتاب التفسیر) اللہ نے جواب دیا کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جب تک آپ ان میں موجود ہیں ، ان پر مہلک اور معجزانہ عذاب نہیں آ سکتا۔ عذاب سے دوسرا مانع مومنین کا استغفار کا وظیفہ کرنا ہے، جب تک بھی وہ بخشش مانگتے رہیں گے، عذاب رکا رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امتِ محمدیہ پر پہلے لوگوں کی طرح عام اور خرق عادت عذاب نہیں آتا۔ ترمذی میں اس مضمون کی ایک حدیث بھی آئی ہے۔[2] صاحبِ کتاب نے اس پر کچھ کلام بھی کیا ہے، مگر مضمون صحیح اور قرآنی آیت کے موافق ہونے کے سبب سے مسترد نہیں ہوگی۔ فرمایا کہ مجھ پر میری امت کے لیے دو امان اتارے گئے ہیں ، یعنی خرق عادت عذاب سے محفوظ رہنے کے دو سبب ہیں : ایک میرا وجود اور دوسرا امت کااستغفار کرنا،اپنے گزرنے کے بعد میں استغفارِ امت چھوڑجاؤں گا۔ (منقول از جامع البیان) [3] گو اس سنتِ الہٰیہ میں سابقہ انبیا علیہم السلام بھی شامل ہیں کہ ان کی موجودگی میں بھی قہر نہ اترتا، تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس میں خصوصی خوبی اور فضیلت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس جگہ میں ہوں ، وہاں سے
Flag Counter