Maktaba Wahhabi

73 - 668
یعنی انسان جتنا بوجھ اٹھا سکے، اس کی حسبِ طاقت اس پر بوجھ ڈالا جاتا ہے اور جس بوجھ کے اٹھانے کی طاقت نہ رکھے، وہ اس سے ساقط کیا جاتا ہے۔ ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جب میں تمھیں کوئی حکم دوں تو اس کو حسبِ طاقت عمل میں لاؤ اور جس چیز سے تمھیں روکوں رک جاؤ۔‘‘ (ابن ما جہ، باب اتباعِ سنت) [1] یعنی انسان کو جس حکم پر عمل کرنے کی طاقت ہو، اس کا تو وہ مکلف ہے۔ ناظرین! یہ کیسا سنہری اصول اور عدل و فطرت کے موافق ہے، جس سے کوئی منصف انسان انکار نہیں کرسکتا۔ اس کی مثال اس طبیبِ ماہر کی سی ہے، جو مریض کو اس کی مرض کے موافق الگ الگ دوا استعمال کراتا ہے۔ اگر ہر مریض کو ایک ہی دوا کا استعمال کروائے تو وہ طبیب ماہر نہیں ، بلکہ احمق ہے۔ پس اس اصول کی بنا پر، جو میزانِ عدل پر تلا ہوا ہے، انسان کی ہر حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے احکام و قوانین قائم کیے گئے، مثلاً: تندرست کے جو مسائل ہیں ، بیمار سے ساقط ہیں ، کیونکہ وہ اس کی طاقت سے بالا تر ہیں ۔ اسی طرح مقیم کے مسائل کا مکلف مسافر نہیں ہو سکتا۔ اغنیا و مالداروں کے اعمال چونکہ غربا اور فقیروں میں ان کی طاقت نہیں ، لہٰذا اسلام ان کو معذور جانتا ہے۔ الغرض انسان کی کوئی ایسی حالت نہیں جس کے لیے حسبِ طاقت اسلام میں احکام و مسائل نہ پائے جاتے ہوں ، جیساکہ قرآن و حدیث کے مطالعے سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے، حتیٰ کہ جس شخص کو اسلام کی دعوت نہیں پہنچی اور دیوانہ آدمی جو دیوانگی کی حالت میں مر جائے اور کفار کی چھوٹی اولاد جنھیں بلوغت سے پہلے موت آ چکی ہو، اسلام نے ان کا بھی انتظام کیا ہے۔ خدا فرماتا ہے: ﴿وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا﴾ [بني اسرائیل : ۱۵] ’’یعنی ہم کسی کو عذاب نہیں کرتے، جب تک ہم اس کی طرف رسول نہ بھیج دیں ۔‘‘ یعنی کسی مبلغ کے ذریعے جب تک کسی کو اسلام کی تبلیغ نہ پہنچے، اس پر عذاب کا بوجھ ڈالنے کا کوئی حق نہیں ، کیونکہ وہ معذور ہے۔ تفسیر ابن کثیر[2] میں اس آیت کے ما تحت اپنی اسناد سے بہت سی احادیث منقول ہیں ۔ بعض ان میں سے صحیح اور حسن اور بعض ضعیف، جو مضمون کے لحاظ سے صحیح کے
Flag Counter