Maktaba Wahhabi

70 - 668
سنائی تو تم سب نے نہ مانا، یعنی معجزے طلب کیے اور دیکھنے پرایمان لائے، لیکن ابوبکر واحد آدمی تھے جنھوں نے بغیر کسی معجزے اور جھگڑے کے میری تصدیق کی۔ (بخاری، تفسیر ابن کثیر جلد دوم تحت آیۃ مذکورہ) [1] اس آیت میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت مکان و زمان کے لحاظ سے عالمگیر اور قیامت تک کے لیے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت دوسرے انبیا علیہم السلام کی امتوں سے بہت زیادہ ہو گی۔ حدیث میں آتا ہے: (( کَانَ النَّبِيُّ یُبْعَثُ اِلیٰ قَوْمِہِ خَاصَّۃً، وَبُعِثْتُ إِلیٰ النَّاسِ عَامَّۃً)) [2] ’’یعنی ہر نبی اپنی قوم کی طرف خصوصیت کے ساتھ بھیجا جاتا تھا اور میں عام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں ۔‘‘ دوسری حدیث میں ہے: (( وَ أُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً، وَ خُتِمَ بِيَ النَّبِیُّوْنَ)) (بخاري و مسلم، مشکاۃ باب فضائل سید المرسلین) [3] یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’میں عام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہوں اور میرے ساتھ نبیوں کو ختم کیا گیا ہے۔‘‘ لفظ ’’خلق‘‘ جن اور انسانوں دونوں کو شامل ہے۔ ’’کافّہ‘‘ کے معنی عام ہیں ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تمام جنوں اور انسانوں کے لیے تا قیامت عام ثابت ہو چکی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نئے نبی کی ضرورت نہ رہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا عام ہونا ختمِ نبوت کی علت ہے۔ جنات کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغِ اسلام کی اور وہ بھی مسلمان ہوئے۔ احادیث میں ان کے واقعات موجود ہیں کہ جنوں کے وفد آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کبھی کسی صحابی کو ساتھ لے کر ان کو وعظ سنانے جایا کرتے تھے۔ بعض جن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی بھی تھے اور اپنی قوم کے مبلغ بھی۔ (دیکھو تفسیر ابن کثیر،
Flag Counter