Maktaba Wahhabi

63 - 668
سے دوبارہ الگ ذکر کیے گئے، کیونکہ ان کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی مشابہت ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کا سب سے پہلے اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک جس قسم کی وحی تمام نبیوں کو عطا کی گئی، ان تمام اقسام کو جو الگ الگ تھیں ، اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے کو وحی سے ممتاز فرمایا،جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وسعت علمی کا ثبوت بہم پہنچتا ہے۔ پہلے انبیا کے علم اور وحی سے کوئی ایسی قسم نہیں ، جو بلحاظ کمیت و کیفیت اور مضمون کے حضورصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل نہ کی گئی ہو۔ تمام انبیا کی وحی اور علم ایک طرف اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی اور علم دوسری طرف۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام انبیا کے مقابلے میں وسیع العلم ہونا اس امر کی وضاحت کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کثرتِ علوم میں ان سب سے بلند پایہ اور اعلیٰ مرتبہ ہیں اور یہ مسلمہ امر ہے کہ کم علم کے مقابلے میں زیادہ علم والا نہایت اشرف و برتر سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کو باوجود سب سے آخری ہونے کے مندرجہ ذیل آیت میں سب سے پہلے ذکر فرمایا: ﴿کَذٰلِکَ یُوحِیْٓ اِِلَیْکَ وَاِِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ﴾ [الشوریٰ : ۳] ’’یعنی اللہ تعالیٰ نے اسی طرح اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر وحی کی ہے اور ان لوگوں کی طرف جو آپ سے پہلے تھے۔(یعنی انبیا علیہم السلام) ‘‘ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی اور علم حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر تمام انبیا کی وحی سے اشرف و اعلیٰ نہ ہوتا تو اس کا ذکر ان سب سے پہلے نہ کیا جاتا۔ جاننا چاہیے کہ سابقہ انبیا کی باعتبار شریعت و کتاب کے دو قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جنھیں ایسی شریعت و کتاب منیر ملی، جو پہلی شریعت کی ناسخ ہے، جیسے موسیٰ علیہ السلام وغیرہ اور بعض ان میں سے ایسے ہیں جن کو پہلی شریعت کی تائید میں چھوٹی چھوٹی کتابیں ملیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی وحی پہلے نبیوں کی وحی کے مقابلے میں ان سب جیسی وحی عطا کرتے ہوئے علمیت سے نواز کر افضل ثابت کر دیا۔ کتاب منیر آپ پر اعجازی کلام قرآن نازل فرمایا گیا، جس کو جبریل علیہ السلام فرشتہ خدا کی طرف سے لا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایا کرتا تھا اور پہلے نبیوں کے صحیفوں کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حدیث نازل کی گئی، جو قرآن مجید کی تفسیر ہے اور اس میں احکامِ اسلام کی تفصیل بھی پائی جاتی ہے اور وہ ہر قسم
Flag Counter