Maktaba Wahhabi

617 - 668
بلکہ صحیح حدیث میں اس امر کی تصریح ہے، چنانچہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اَلمجتھد قد یصیب وقد یخطیٔ)) (مشکاۃ) یعنی مجتہد کبھی صواب اور کبھی خطا بھی کرتا ہے، لہٰذا کسی کا قول قابلِ حجت نہیں ، کیوں کہ اس میں خطا کا احتمال ہے، خواہ وہ کوئی مجتہد ہی کیوں نہ ہو۔ ہاں اگر کتاب و سنت کے مطابق ہو تو بسر و چشم تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ جس شخص نے عمومِ حدیث کو رجال کے اقوال سے مخصوص یا مستثنیٰ سمجھا تو لازم آتا ہے کہ اس کے نزدیک احادیثِ نبویہ اور اقوالِ رجال میں مساوات ہو اور اس طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور شان کی تحقیر لازم آتی ہے اور ان کی تحقیر شان کرنی کفر ہے اور کرنے والا کافر۔ أعاذنا اللّٰه من ذلک۔ ملا جی نے جو اقوال مستثنیٰ کے بارے میں پیش کیے ہیں وہ نہ صرف حدیثِ نبوی، بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و ائمہ اربعہ رحمہم اللہ اور دیگر مجتہدین کے بھی ظاہر متناقص ہیں اور دیگر فقہا کے اقوال ان کے خلاف بھی اکثر ملتے ہیں ، جیسا کہ آیندہ لکھا جائے گا، إن شاء اﷲ، پس دریں صورت ہم اہلِ سنت پر لازم ہے کہ ان اقوال پر عمل کریں جو کہ سنت کے مطابق ہوں اور مخالف سے پرہیز کریں ۔ ملا صاحب کوٹلی نے غازی ابن سعود کے ساتھ اتنی ضد کی اور حسد و تعصب کو اس حد تک پہنچایا کہ کتاب و سنت و آثارِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ دین و اکثر فقہا و محدثین کی مخالفت کو منظور کیا۔ ایمان اگر نہ رہے تو کوئی مضائقہ نہیں ، مگر پختہ قبریں اور ان پرہندوؤں کے مندروں کی طرح منارے اور قبے ضرور بن جائیں ۔ مرزائیوں کی طرح اگر قرآن و حدیث کی مخالفت ہو تو ہو، اسلام سے خارج ہو جائیں تو خیر مگر حیاتِ مسیح علیہ السلام و ختم نبوت کے تسلیم کرنے سے جان جسم سے جدا ہو جاتی ہے۔ وہ بھی ملا صاحب ہی کی چال چلتے ہیں ۔ قرآن و حدیث کے مقابلے میں چند اقوالِ رجال کو سند بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ مشائخ و علما کے مزارات پر قبے بنانے کے جواز کے بارے میں ملا صاحب نے جتنے اقوال پیش کیے ہیں ، ان کا مطلب ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ مشائخ و علما کی قبروں پر بنا کرنا سلف نے مباح جانا، اس واسطے کہ لوگ ان کی زیارت کریں ، خوشی حاصل کریں اور اس میں عوام کی نظروں میں تعظیم کا قصدہو اور لوگ اس قبر والے کو حقیر نہ سمجھیں اور یہ بھی لکھ دیا کہ اگر بہ نیت فخر و تکبر اور زیب و زینت ہو تو منع ہے۔ اقول: یہ تعظیم جو بدعت و شرک کی دعوت دیتی ہے، شریعت میں اس کا نام و نشان ہی نہیں ملتا۔ اگر یہ تعظیم ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی قبروں پر ضرور عمارت کی جاتی اور چونا گچ بنائی جاتیں ،
Flag Counter