Maktaba Wahhabi

594 - 668
تَخْرُجُوْا فِرَاراً مِنْہُ وَ إِذَا وَقَعَ وَ لَسْتُمْ فِیْھَا فَلَا تَقْدَمُوْ*ا إِلَیْھَا)) [1] ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ بے شک جب طاعون پھیل جائے اور تم وہاں ہو تو اس سے ڈرتے ہوئے ہرگز باہر( کسی دوسری جگہ وغیرہ) نہ جاؤ اور جب یہ طاعون کی بیماری واقع ہو جائے اور تم وہاں نہ ہو تو تم اس علاقے کی طرف پیش قدمی مت کرو۔‘‘ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ یہ حدیث سن کر واپس ہو چلے تو کسی نے کہا: ’’أفررتم من قدراللّٰہ؟ قال: فررنا من قدراللّٰہ إلیٰ قدراللّٰہ‘‘ ’’کیا تم اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہو؟ تو جواب میں فرمایاکہ ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں ۔‘‘ گویا تقدیر کا مسئلہ بھی حل کر دیا اور یہ بھی ثابت ہوا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی جب کبھی کوئی مسئلہ درپیش آتا تو قرآن کے بعد حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم مل جاتی تو اس پر عمل کرتے۔ علاوہ ازیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مصر کے قاضی شریح کو لکھتے ہیں : ’’إذا جاء ک أمر فانظر في کتاب اللّٰہ، فإن لم تجد في کتاب اللّٰہ ففي سنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم و إن لم تجد في سنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم فاجتھد برأیک۔۔۔۔‘‘[2] ’’(اے شریح!) اگر تیرے پاس کوئی مسئلہ پیش آئے تو اس کو حل کرنے کے لیے قرآن پاک کے قوانین و ضوابط کو مقدم سمجھو۔ اگر قرآن پاک سے مسئلہ حل نہ ہو سکتا ہو تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے رکھو۔ اگر اس سے بھی مسئلہ نہ ملے تو پھر اپنی رائے سے اجتہاد کرو، مگر میں تجھے کہتا ہوں کہ تو خود اجتہاد نہ کر، کسی سابقہ صحابی کا اجتہاد لے کر استعمال کیا کر۔‘‘ یہی مسلک اہلِ سنت والجماعت اہلِ حدیث کا ہے۔ الحاصل کتاب و سنت کے مقابلے میں کسی شخص کا اجتہاد ہرگز نہیں چل سکتا۔ کتاب و سنت میں اگر اصلی مسئلہ نہ ملے تو پھر اجتہاد کی اجازت ہے۔ ہم اہلِ سنت کسی غیر معین مجتہد کا اجتہاد لے کر استعمال کر لیتے ہیں ، جو اجتہاد اقرب الی الشریعت ہو۔ فافہم۔
Flag Counter