Maktaba Wahhabi

57 - 668
میں ایک مندرجہ ذیل ہے۔ مسند ابی یعلیٰ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے باسناد صحیح مروی ہے: ’’ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو فرمایا کہ تم اہلِ کتاب یعنی یہود اور عیسائیوں سے کسی مسئلے کا سوال نہ کیا کرو کہ وہ خود گمراہ ہیں ، تمہیں کس طرح ہدایت دے سکتے ہیں ؟ اگر وہ تمہیں کوئی مسئلہ بتائیں اور وہ مسئلہ باطل ہو اور تم اپنی لا علمی کی وجہ سے اس کی تصدیق کر بیٹھو، یا وہ سچ ہو اور تم اس کی تکذیب کرو (یعنی جھوٹا سمجھو) تو ان دونوں صورتوں میں نقصان ہے: (( وَاللّٰہِ إِنَّہٗ لَوْ کَانَ مُوْسیٰ حَیًّا بَیْنَ أَظْھُرِکُمْ مَا حَلَّ لَہٗ إِلَّا أَنْ یَّتَّبِعَنِيْ)) ’’یعنی خدا کی قسم تحقیق شان یہ ہے کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام تمہارے درمیان زندہ اور موجود ہوں تو ان کو میری اتباع کے سوا زندگی بسر کرنا حلال نہیں ۔‘‘[1] اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلے انبیا کے زمانے میں ان کی زندگی میں موجود ہوتے تو ان پر فرض تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں زندگی بسر کرتے یا اگر تمام انبیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں زندہ ہو کر آ جاتے تو باوجود نبی مرسل ہونے کے ان کے لیے گنجایش نہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد اور اتباع کے سوا زندگی بسر کرتے۔ ناظرین! یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیسی شاندار فضیلت ہے کہ کسی نبی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے سوا چارہ نہیں اور ایک دفعہ یہ امر واقع میں بھی آ گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ معراج کی رات بیت المقدس میں تمام انبیا جمع ہوئے اور ان میں سے تین کا نام بھی بتایا، حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، چونکہ یہ اولوالعزم نبی تھے، اس لیے ان کا نام بیان کر دیا۔ پس نماز کا وقت ہو گیا اور میں ان سب کا پیش امام ہوا۔ (مسلم، مشکاۃ، باب المعراج) [2] یہ امر مسلمہ ہے کہ امام بہ نسبت مقتدیوں کے بڑا بلند مرتبہ رکھتا ہے۔ انبیا علیہم السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ کر اس امر کا اقرار کر لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے بلند پایہ اور عالی درجہ ہیں ۔ اس نماز سے انبیا کے میثاق کی بھی تصدیق ہو گئی۔
Flag Counter