Maktaba Wahhabi

545 - 668
ذرا آپ اس دعوے کو بنظرِ غائر مطالعہ کریں تو آپ محسوس کریں گے کہ کتنا زوردار ہے یہ دعوی کہ زمین اور آسمان کے قائم رہنے تک بائبل کے ایک نقطے اور سوشے کا رد و بدل نہیں ہو سکتا، حالانکہ یہ دعویٰ مندرجہ بالا آیت جو استثنا کی کتاب میں ہے، کے بھی خلاف ہے، کیونکہ اس آیت میں ثابت کیا گیا ہے کہ تورات کی عبارت میں رد و بدل ممکن ہے۔ پھر امکان اور امر محال میں سخت تناقض ہوتا ہے۔ اب ہم اس بات کی تحقیق بھی کریں گے کہ اس پر زور پیش گوئی میں کہاں تک صداقت ہے؟ مندرجہ ذیل آیت کا غور سے مطالعہ کریں : استثنا کی کتاب باب (۳۳) کے شروع میں لکھا ہے: ’’خدا وند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لیے تھی۔‘‘ ان آیت میں تین نبیوں کا یکے بعد دیگرے ذکر ہے۔ سب سے پہلے خداوند سینا سے آیا، جس کا مطلب یہ ہے خدا تعالیٰ نے طورِ سینا پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات دی اور شعیر پہاڑ پر حضرت مسیح علیہ السلام کو انجیل اور فاران، یعنی عرب کے پہاڑ سے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کے ذریعے سے جلوہ گر ہوا۔ یہاں فاران سے مراد عرب اور خاص کر مکہ معظمہ ہے، جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام خداوند کے حکم کے موافق اپنی بیوی ہاجرہ[ اور شیر خوار بچے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو چھوڑ آئے تھے۔ کتاب پیدایش (باب ۲۱ آیت ۲۰) میں ذکر ہے: ’’اور خدا اس لڑکے کے ساتھ تھا اور وہ بڑا ہوا اور بیابان میں رہنے لگا اور تیر انداز بنا اور وہ فاران کے بیابان میں رہتا تھا۔‘‘ پھر ہمارے اس دعوے کی تائید خود پولوس رسول بھی اپنے الہامی کلام سے کر رہے ہیں ، چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ ’’ہاجرہ عرب کا کوہ سینا ہے‘‘ گلتیوں کے نام خط باب ۴ آیت ۲۵۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور آپ کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فاران میں ، جسے پولوس رسول عرب کہتا ہے، اس میں ایسا قیام اور سکونت اختیار کی کہ اس سے باہر نہیں نکلے، جیسا کہ کوہِ سینا اپنی جگہ سے سرک کر کسی دوسری جگہ تبدیل نہیں ہوتا۔ پس ثابت ہوا کہ فاران اور عرب دو الگ الگ نہیں ہیں ، بلکہ ایک ہی جگہ کے دو نام ہیں اور مندرجہ بالا پیش گوئی میں جس فاران کا ذکر ہے، اس سے مراد
Flag Counter