Maktaba Wahhabi

522 - 668
ایک فعل میں دو فاعل یا مفعول بھی شریک ہوتے ہیں ، لیکن ان کے سبب الگ الگ ہوتے ہیں ، جیسا اس بات کی شہادت انجیل سے بھی ملتی ہے، چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام کو ایک شخص نے کہا: ’’اے نیک استاد! تو یسوع نے اس سے کہا: تو مجھ کو نیک کیوں کہتا ہے؟ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا۔ ‘‘ (مرقس ب ۱۰ آیت ۱۸) تو یہ قول خدا تعالیٰ کے سوا تمام مخلوق کی طرح نیک نہ ہونے میں حضرت مسیح کو بھی شامل ہے اور خدا کے سوا حضرت مسیح کو بھی تمام مخلوق کے ساتھ گناہ گار ہونے میں برابر اور شریک کرتا ہے۔ اب اگر کوئی اس قول کو سامنے رکھ کر حضرت مسیح کو باقی مخلوق کی طرح گناہ گار ثابت کرے تو عیسائی دوست فوراً کہیں گے کہ اگرچہ اس قول میں مسیح تمام مخلوق کے ساتھ برابر ہے، مگر تاہم مسیح کے نیک نہ ہونے کا سبب گناہ گاری نہیں ہے، جس طرح کہ دوسری مخلوق کا سبب گناہ گاری ہے، بلکہ مسیح کے اپنے آپ کو نیک نہ کہنے سے مراد کسرِ نفسی، عاجزی اور تواضع ہے، کیونکہ مسیح کے نیک ہونے کے دلائل انجیل کے دوسرے مقامات میں درج ہیں ۔ پس ٹھیک اسی طرح اہلِ کتاب کے تورات اور انجیل کے قائم نہ کرنے سے مراد اُن کی تحریف لفظی ہے بخلاف قرآن کے کہ اس کے قائم نہ کرنے کا سبب ان کا معاندانہ انکار ہے۔ پھر عیسائی حضرات کی طرف سے ایک اور آیت بڑی تیزی سے بائبل کی صداقت میں پیش کی جاتی ہے کہ دیکھو خدا تعالیٰ نے آپ کے نبی کو حکم دیا ہے کہ جب تم کسی آیت کے متعلق شک میں پڑو تو اہلِ کتاب سے شک رفع کرا لیا کرو۔ چنانچہ اصل ترجمہ آیت یہ ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اگر آپ شک میں ہیں اس چیز کے بارے میں جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے تو ان لوگوں سے، جو آپ سے پہلے کتاب کو پڑھتے ہیں ، پوچھ کر دیکھ لو۔ (سورۃ یونس، رکوع ۱۰) [1] یہ آیت پیش کر کے عیسائی دوست کہتے ہیں کہ اگر ہماری کتابیں محرف ہو چکی تھیں تو تمھارے نبی کو خدا نے کیوں فرمایا کہ کتاب پڑھنے والوں سے سوال کر کے شک کو رفع کریں ؟ اس پیش کردہ آیت کا جواب یہ ہے کہ تفسیر جامع البیان اور تفسیر ابن کثیر اور تفسیر کبیر میں اس
Flag Counter