Maktaba Wahhabi

501 - 668
ایک ت کے اور اس کو اسی رسم الخط میں تحریر کر لیا۔ اگرچہ رسم الخط سے کلام میں معمولی سی تبدیلی بھی نہیں آ سکتی، مگر تاہم پھر بھی اس لیے احتیاط کی گئی تھی کہ قرآن جس زبان میں نازل ہوا ہے، رسم الخط بھی اس کے مطابق ہو جائے۔ سوم: ان میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے قرآن سے فقط ایک آیت کو ہی گم پایا گیا تھا، حالانکہ وہ آیت سیکڑوں صحابہ رضی اللہ عنہم کو زبانی یاد تھی، مگر پھر بھی لکھی ہوئی مل گئی، تاکہ حفظ اور تحریر میں موافقت ہو جائے۔ حدیث میں جو (( فُقِدَتْ آیَۃٌ)) آیا ہے، جس کا ترجمہ ہم نے ’’ایک آیت کو گم پایا گیا‘‘ کیا ہے اور فقدان کے معنی ہیں بھی گم پانے کے، یعنی پہلے ایک چیز موجود ہو، پھر کسی سبب سے زائل ہو جائے تو اس کو فقدان کہا جاتا ہے۔ پس اس کے یہ معنی ہوئے کہ یہ آیت بھی اس قرآن میں موجود تھی جو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے منگایا گیا تھا۔ پھر کسی سبب سے زائل ہو گئی ہو گی یا یہ کہ وہ آیت نہایت ہی مدہم لکھی ہوئی ہو گی یا پھر سیاہی کا غبار آ گیا ہو گا یا پھر سیاہی پھٹ گئی ہو گی، وغیرہ وغیرہ۔ چہارم: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کی جمع و ترتیب بھی ان تین صحابہ رضی اللہ عنہم ، یعنی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ جیسی رکھی۔ یہاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ذکر کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ انھوں نے سیدنا عبداﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو فرمایا: ’’اے میرے بھتیجے میں قرآن کی کسی چیز کو بھی اس کی اصل جگہ سے نہیں بدلوں گا۔‘‘ (بخاري، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ البقرۃ) [1] تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خود اپنے اس فرمان سے بات بالکل صاف ہو گئی اور اس امر کی وضاحت بھی ہو گئی کہ آپ نے اصل متنِ قرآن میں ایک نقطہ کی بھی تبدیلی نہیں کی۔ پھر آپ نے جس ترتیب سے قرآن کی سورتوں کو مرتب کیا، اس سے پہلے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس ترتیب سے صحابہ رضی اللہ عنہم کو حفظ کرا گئے تھے۔ پھر یہی ترتیب سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے جمع کردہ قرآن میں قائم تھی۔ اسی لیے تو صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی حافظ نے اس کی مخالفت نہیں کی۔
Flag Counter