Maktaba Wahhabi

490 - 668
ادغام، اظہار، تفخیم، ترقیق، امالہ، مد، ہمزہ اور تلفین، عرب ان لغات میں مختلف تھے۔ کسی قبیلے کو زیادہ ادغام کی عادت تھی اور کسی کو اظہار کی۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر آسانی کی اور ہر ایک سات قراء توں میں سے جسے چاہے پڑھے۔ (حاشیہ مشکاۃ، باب اختلاف القراء ات) پھر یہ قراء تیں اب بھی قرآن کے اسی متن میں موجود ہیں ۔ ایک قاری اس قرآن کو جس قراء ت پر چاہے پڑھ سکتا ہے۔ صرف اعراب کے اعتبار سے اور نطق میں بعض آیات میں قدرے تبدیلی ہو جاتی ہے نہ کہ الفاظ میں ۔ علاوہ ازیں ایسی قراء ت جو الفاظ میں تبدیلی کرتی ہے اور جن بعض آیات کے ساتھ کچھ الفاظ زائد ہوتے ہیں ، وہ صرف ترجمہ اور تفسیر ہیں ، متنِ قرآن ہر گز نہیں ، جیسا کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے الفاظ یاد کر کے اپنے اپنے مسودوں میں درج کر رکھے تھے۔ بحوالہ کتبِ حدیث کی کتاب التفسیر اور ابواب القراء ت سے ثابت ہے اور یہ حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ٹھیک یہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے۔‘‘ (مشکاۃ، باب اختلاف القراء ات) [1] اس کے معنی سات قراء اتِ مذکورہ ہیں جو اس قرآن میں شامل ہیں ۔ حرف لفظ کے اعرابوں کی تبدیلی کا نام ہے اور ب ت حروفِ ہجا وغیرہ کو بھی حرف کہا جاتا ہے۔ صاحبِ تاویل القرآن کا دعویٰ ہے کہ قرآن کا اطلاق ان ساتوں حروف کے مجموعے پر ہوتا ہے۔ اب موجودہ قرآن صرف ایک حرف پر مشتمل ہے تو اس کا صرف ساتواں حصہ سالم قرآن اصلی کہہ سکتے ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کا اطلاق ہمیشہ ہی ان ساتوں حروف کے مجموعے پر ہوا ہے، کوئی قراء ت اس سے خارج نہیں ہے۔ علاوہ ازیں حرف کے معنی کتاب کے حصے کو سمجھنا لغت سے لا علمی اور جہالت ہے۔ در اصل یہ لوگ اپنے مذہب کے تعصب میں آ کر ایسی گفتگو کرتے ہیں جو دیانت سے بالکل خالی ہوتی ہے۔ ٭٭٭
Flag Counter