Maktaba Wahhabi

44 - 668
[اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر جہانوں پر رحم کرتے ہوئے] اب ختم الانبیا اور ختم المرسلین کی تعلیم کا گھر گھر چرچا ہوا اور قیامت تک واجب العمل قرار پائی۔ پہلی بار جب یہ تعلیم یہود و نصاریٰ اور مشرکینِ عرب کے سامنے پیش کی گئی تو انھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوہء حسنہ کی عظمت کے دعوے کے باوجود ماننے سے انکار کر دیا۔ کیوں ؟ اس لیے کہ ان کی خواہشات اور توقعات کا بت پاش پاش ہو رہا تھا، ان کی قیادت ہمیشہ کے لیے ختم ہو رہی تھی، ان کی سیادت کا جنازہ نکل رہا تھا اور ان کی آرزوؤں کا خون ہو رہا تھا، مگر کلمہ حق ضرور بلند ہونا تھا اور بنی اسرائیل کی وہ شاخ جو حضرت اسحاق علیہ السلام سے وابستہ تھی، اپنا دورِ نبوت ختم کر چکی تھی اور اب یہ نعمت سرمدی حضرت اسماعیل علیہ السلام کے خاندان کو ہمیشہ کے لیے ودیعت ہونے والی تھی۔ انوارِ نبوت کی ضیا پاشی ملک عرب میں ہوئی، جہاں بیت اللہ کی بنیاد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے رکھی تھی۔ یہ بیت اللہ اس وقت کی تمام مذہبی جماعتوں کے علاوہ مشرکینِ عرب کے لیے واجب التعظیم تسلیم کیا جاتا تھا، مگر حق کو نہ ماننے میں یہ لوگ متامل ہوئے، اور سید العالمین کے اخلاقِ عالیہ اور صفاتِ حمیدہ کی بدولت صرف ۶۳ سال کے عرصے میں تمام دنیا میں وہ تعلیم پھیل گئی۔ اگر ایسے تاریک دور میں سید العالمین کے فضائل کو ہر چھوٹے بڑے نے اتنی قلیل مدت میں تسلیم کر لیا تھا تو کیا اس دور میں ، جبکہ سائنس اور علم کی روشنی دنیا کے کونے کونے میں پھیل رہی ہے، کسی کو انکار کی جراَت ہوگی؟ آیندہ صفحات میں فاضل مؤلف نے اتمامِ حجت کی ایک کامیاب کوشش کی ہے، ورنہ؎ نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر اردو میں اچھی اچھی کتابیں لکھی گئی ہیں اور ہمیشہ لکھی جاتی رہیں گی، لیکن اس ڈھب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جن فضائل کو تسلیم کرایا گیا ہے، وہ ایک ایسی خوبی ہے جو مصنف نے نہایت کامیابی سے نبھائی ہے اور وہ اس کارنامے کے لیے مستحقِ مبارکباد ہیں ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس کوشش کو قبول فرمائے اور ان کے لیے آخرت میں جزائے خیر کا
Flag Counter