Maktaba Wahhabi

434 - 668
معالم اور حاشیہ مشکاۃ میں ہے: ’’وَرَدْتُّ الْمَآئَ أيْ حَضَرْتُہٗ‘‘ عرب کہتے ہیں کہ میں پانی کے پاس گیا۔ قرآن شریف میں ہے کہ جب مسافروں کا قافلہ آیا تو انھوں نے اپنا ’’وارد‘‘ بھیجا، تا کہ پانی لائے۔ اس نے ڈول کنویں میں ڈال دیا۔ (سورت یوسف: آیت: ۱۹) اگر ’’وارد‘‘ کنویں میں ’’داخل‘‘ ہوتا تو وہ پانی میں ڈول کیسے ڈال سکتا تھا؟ ﴿وَلَمَّا وَرَدَ مَآئَ مَدْیَنَ﴾ حضرت موسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدین کے پانی کے قریب پہنچ گئے تو وہاں دیکھا کہ ایک قوم پانی پلاتی ہے۔ (سورت قصص: آیت: ۶۳) ان دونوں موقعوں پر اس لفظ سے پانی کے اندر گھسنا مراد نہیں ہے۔ تفسیر ابنِ کثیر میں بحوالہ مصنف ابنِ ابی شیبہ بہ اسناد صحیح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین کے پانی تک پہنچ گئے تو وہاں ایک جماعت کو دیکھا کہ وہ اپنی بکریوں کو پانی پلا رہے تھے۔ جب وہ فارغ ہوئے تو انھوں نے ایک بڑا بھاری پتھر کنویں پر رکھ دیا، جس کو دس آدمیوں سے کم نہیں اٹھا سکتے تھے۔ حضرت موسیٰ نے اس پتھر کو کنویں پر سے اٹھا کر اس کنویں میں ایک بڑا ڈول ڈال دیا۔ پھر نکال کر دو عورتوں کی بکریوں کو پانی پلایا، حتی کہ وہ سیر ہو گئیں ۔[1] اس صحیح واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پانی کے کنویں میں ہر گز داخل نہیں ہوئے۔ اس سے وارد کے معنوں کی خوب وضاحت ہوتی ہے۔ فافہم۔ 5۔ سیئات :فرعون قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے آگے ہو گا اور داخل کرے گا اپنی قوم کو دوزخ میں ۔ (شیر ص: ۱۰) نجات :اس آیت میں اگر داخل ہونے کے بھی معنی لیے جائیں تو کوئی حرج کی بات نہیں ۔ اس لیے کہ فرعون کی قوم بھی پادری صاحب کی طرح خارج از اسلام اور کافر تھی۔ اس قرینے سے ’’وارد‘‘ کے معنی ہو سکتے ہیں ، اس لیے کہ یہ کفار کے حق میں ہے۔ اس آیت کے ساتھ سورت ہود میں ﴿بِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ﴾ ہے۔ جس کا پادری صاحب نے اس لیے ترجمہ نہیں کیا کہ کفار کا دوزخ میں ’’وارد‘‘ ہونا بہت برا ہے۔ جس کا مفہوم مخالف ’’ نِعْمَ الْوِرْدُ‘‘ہے۔ یعنی مومنوں کا دوزخ کے پل صراط سے گزر جانا بہت ہی اچھا ہے۔
Flag Counter