Maktaba Wahhabi

427 - 668
ہیں ، مگر ان کی اشاعت صرف اس لیے ہو رہی ہے کہ اس سے دوسرے ملک کے حالات معلوم ہوتے رہتے ہیں اور اس ملک کی سیاسیات میں دخل دینے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ تعلیمی مشنریاں سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے پھرتی ہیں ۔ تعلیمی ادارے تعلیم کے ساتھ عیسائیت اور عیسائیت کے ساتھ اپنی سیاست کو کامیاب بنانے کا بہترین ذریعہ ہیں ۔ ہندوستان اور پاکستان میں انگریزی حکومت کے صد سالہ دور نے تعلیم کی راہ سے ایسی تباہی مچائی ہے کہ ہر پڑھا لکھا آدمی نیم بابو یا عیسائی معلوم ہوتا ہے۔ اسلام کے ہمدرد اور خیر اندیش حضرات کو ان تمام چور دروازوں پر نظر رکھنی چاہیے اور انھیں بند کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ عیسائیت کی روک تھام کے لیے محض مناظرات اور لٹریچرہی کافی نہیں ۔ بعض دوسری راہیں آج کل اس سے کہیں زیادہ موثر ہیں ۔ پادری سلطان محمد پال نے آج سے کئی سال پہلے ایک رسالہ لکھا تھا، جس میں ظاہر کیا تھا کہ انھیں اسلام میں چونکہ نجات نظر نہ آئی، اس لیے وہ عیسائی ہو گئے۔ معمولی قسم کا طالبِ علم سمجھتا ہے کہ وہ محض مغالطے تھے، جو نو آموز عیسائیوں کو خوش کرنے کے لیے لکھ دیے۔ ورنہ وہ کچھ حقیقت نہ تھے۔ پادری صاحب زندہ ہوتے تو ہم ان سے عرض کرتے کہ ان کی اصل مصیبت آخرت نہیں دنیوی نجات ہی تھی، مگر اب پادری صاحب کا انتقال ہو چکا ہے، اس لیے بحث بے وقت ہے۔ ہمارے مولوی احمد الدین صاحب مخلص اور اہلِ علم ہیں ۔ وہ ایسے معاملات میں اپنا فرض ادا کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ انھوں نے پادری صاحب کے ان مغا لطوں کا پورا تعاقب کیا ہے کہ اگر کوئی شخص ان وجوہ سے ارتداد کی طرف مائل ہوا ہو تو ا س کی تسکین کا سامان ہو جائے۔ سیاسی، معاشی، علمی راہوں سے آنے والی عیسائیت کا علاج ان لوگوں کا فرض ہے جو ان راہوں کے دروبست پر قابض ہیں ۔ اللہ تعالیٰ مولوی صاحب کو اجر اور توفیق عطا فرمائے، تا کہ وہ مزید دین کی خدمت کر سکیں ۔ کتاب آپ حضرات کے سامنے ہے، اس کے متعلق مجھے کسی تعریف کی ضرورت نہیں ۔ وہ خود اپنے متعلق سچا شاہد ہے۔ وَاللّٰہُ وَلِيُّ التَّوْفِیْقِ۔ محمد اسماعیل، مدرس گوجرانوالہ یکم محرم الحرام ۱۳۸۱ھ مطابق ۱۵/جون ۱۹۶۱ء
Flag Counter