Maktaba Wahhabi

370 - 668
کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زینب رضی اللہ عنہا کی طرف جا اور اس کو میرے لیے یاد کرا۔ پس وہ چلے گئے، حتی کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچ گئے، بحالیکہ وہ آٹا گوندھ رہی تھیں ۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو دیکھا تو ان کی عظمت کی ہیبت میرے سینے پر ایسی طاری ہوئی کہ میں ان کی طرف دیکھ نہ سکا۔ میں خیال کرتا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یاد کیا ہے۔ پس میں نے ان سے اپنی پیٹھ کو پھیر لیا اور اپنے پاؤں پر واپس لوٹا۔ میں نے عرض کی: اے زینب رضی اللہ عنہا! تیرے لیے خوشخبری ہے، کہ تجھے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یاد کیا، یعنی تجھ سے نکاح کا ارادہ کیا۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں کچھ فیصلہ نہیں کر سکتی، یہاں تک کہ میں اپنے خدا سے دعا نہ کروں ۔ پس وہ اپنے گھر کی طرف مسجد میں دعا کے لیے کھڑی ہوئیں اور قرآن نازل ہوا، یعنی خدا کی طرف سے نکاح کی اجازت مل گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا پر بلا اجازت داخل ہوئے۔ (مسلم، کتاب المناقب ج ۱) [1] بغیر اجازت کے اس لیے داخل ہوئے کہ اس سے پیشتر نکاح ہو چکا تھا، جیسا کہ اسی حدیث کی دوسری سند میں ، جو اسی باب میں مذکور ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : تزَوَّجَ، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا۔ سیرت ابنِ ہشام میں مذکور ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے دیگر نکاحوں کی طرح باقاعدہ نکاح کیا گیا اور یہ کتاب کتبِ سیر میں سے سب سے زیادہ صحیح ہے، اس کے صریح الفاظ کا ترجمہ حسبِ ذیل ہے: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کیا، اور اس کے بھائی ابو احمد نے اس کی وکالت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو چار سو درہم مہر دیا۔ (صفحہ: ۶۲۴) بر حاشیہ زاد المعاد مصری۔ کیسا صاف الفاظ میں نکاح کا ذکر ہے، جس میں شبہہ کی ذرہ بھر گنجایش نہیں ہو سکتی۔ اس نکاح کا ولی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا سگا بھائی عبداللہ بنا اور حضور نے چار سو درہم مہر بھی اداکیا۔ یہی اسلامی نکاح باقاعدہ ہے۔ کیوں پنڈت جی! مسلمانوں کے پاس اس نکاح کا عقلی ثبوت ہے یا نہیں ، جس کا آپ مطالبہ کر رہے ہیں ؟ آپ نے جھوٹی روایت کی بنا پر ناحق شور مچا رکھا ہے، کہ دنیامیں نکاح نہیں ہوا،جو بے سند ہونے کے علاوہ مذکورہ بالا احادیثِ صحیحہ کے برخلاف ہونے کی وجہ
Flag Counter