Maktaba Wahhabi

363 - 668
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں اپنے دل میں سوچ سمجھ لوں ۔ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے آثار طاری ہو گئے۔ جب وحی سے فراغت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: کسی مومن مرد اور عورت کا یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوئی فیصلہ کرے، یہ کہ ان کے لیے بھی کچھ اختیار ہو۔ (سورۃ الأحزاب) یعنی کتاب و سنت کا فیصلہ ہر مومن مرد و عورت پر تسلیم کرنا فرض ہے، ان کو اپنی مرضی سے اس کے خلاف کرنے کا کچھ اختیار نہیں ۔ پس جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اس کو سنا تو عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے واسطے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو پسند کرتے ہیں ، جب کہ میں اس سے حسب نسب میں اچھی ہوں ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کہا: تب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہیں کرتی ہوں ، میں نے اپنے نفس کو زید کے نکاح میں دے دیا۔ مذکورہ بالا بیان سے آفتابِ تاباں کی طرح واضح ہوا کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورے سے پہلے تو انکار کیا، لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم کیا، جس کا ماننا ہر مومن پر فرض ہے، تو خوشی سے حضرت زید کو منظور کیا۔ اگر حضرت زینب رضی اللہ عنہا خوشی سے اسے قبول نہ کرتیں تو نکاح نہ ہوتا، کیونکہ زبردستی سے نکاح اسلام میں سخت ممنوع ہے۔ پس پنڈت جی کا یہ دعوی کہ زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح زبردستی کرایا گیا تھا، باطل ہوا۔ نکاح ہونے کے بعد کچھ عرصہ ان میں اتفاق رہا، بعد ازاں ان میں سخت ناراضی پیدا ہو گئی۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا خاندان اور حسب نسب شریف تھا اور حضرت زید رضی اللہ عنہ پر غلامی کا داغ لگ چکا تھا۔ تنازعہ یہاں تک بڑھتا گیا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے سخت کلامی سے تنگ آ کر حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دینے کا ارادہ کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر چند اس کو روکا، لیکن وہ طلاق دینے سے باز نہ آئے۔
Flag Counter