Maktaba Wahhabi

341 - 668
آپ صلی اللہ علیہ وسلم گرم ہو گئے اور سو گئے۔[1] یہ تو ہے حدیث جس سے مندرجہ ذیل فائدے حاصل ہوتے ہیں : اول: یہ کام بحالتِ مجبوری کیا جاتا ہے، اگر مجبوری نہ ہو تو جائز نہیں ۔ یعنی عورت اور مرد کے لیے الگ الگ بستر ہو، یا سردی کا موسم نہ ہو تو ایسا نہ کرے۔ دوم: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ کر فارغ ہو گئے، اس کے بعد سردی دور کرنے کے لیے ایسا کام کیا، اس صورت میں نماز اور حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آرام کرنے کا مقابلہ نہ رہا۔ مقابلہ تو اس صورت میں ہوتا ہے جب نماز اور صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آرام کو ایک وقت میں اکٹھا کیا جائے، حالانکہ یہ مشکل اور محال ہے۔ نماز اور عورت کے ساتھ آرام کرنا ایک وقت میں جمع نہیں ہو سکتے، جیسا کہ کوئی یہ کہہ دے کہ ایک آریہ عورت نے آٹا گوندھ کر روٹی پکائی اور نیوگ بھی کرایا۔ حالانکہ یہ مشکل ہے۔ پنڈت جی کے ایسے حواس باختہ ہوئے اور الٹی منطق چلا دی کہ اپنا ترجمہ کیا ہوا بھی نہیں سمجھ سکے، حالانکہ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اونگھنے تک فارغ ہو گئے۔ یا مقابلہ اس صورت میں سمجھا جاتاہے کہ نماز کے وقت میں وصل کو اختیار کیا جائے، حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہو کر سردی دور کرنے کے لیے ایسا کیا۔ لیکن پنڈت جی نے لاعلمی کی و جہ سے اسے وصل سمجھا، حالانکہ یہ وصل کے خلاف ہے۔ سوم: حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حیض کی حالت میں تہ بند سخت باندھ لیا، جیسا کہ اسلامی اصول ہے۔ چہارم: رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا دونوں اپنے ضبطِ نفس اور دل کی خواہش پر زبر دست قادر اور قابو پانے والے تھے۔ اس لیے اس حالت میں حقِ زوجیت ادا نہیں کیا۔ اپنی منکوحہ سے جسم لگا کر آرام کرنا شرعاً اور عقلاً منع بھی نہیں ۔ پنڈت جی! ہم آپ سے ایک بات دریافت کرنا چاہتے ہیں ، ناراض نہ ہونا۔ نیوگ کرنے کے وقت سماجی عورت بے گانے مرد کے لیے اپنی رانیں کھول دیتی ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو نیوگ کیسے ادا ہو سکتا ہے، بلکہ وہ برہنہ ہو کر بے گانے مرد سے صحبت کراتی ہے۔ تعجب ہے کہ جس مذہب میں ایسی قبیح رسم موجود ہو اس کے پیرو اسلام کی پاکیزہ تعلیم پر طعن کرنے سے شرم نہیں کرتے۔ نیوگ کی حالت میں اگر آپ کا مصرعہ پڑھا جائے تو عین مطابق ہے۔ جلوہ بتوں کا دیکھ کر نیت بدل گئی۔
Flag Counter