Maktaba Wahhabi

318 - 668
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جب جونیہ کے باپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جونیہ کا نکاح کرایا، اس وقت جونیہ وہاں موجود نہیں تھی۔ بلکہ وہ مدینے سے باہر کسی اور بستی میں تھی۔ نکاح کے بعد اس کو مدینے میں لایا گیا جس کا اس حدیث میں بین ثبوت بھی ہے۔ اس کے باپ نے نکاح کا لفظ بھی بولا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منظور بھی فرمایا اور اس کا دل حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کرنے کا شائق بھی تھا جو بمنزلِ اجازت ہے۔ اب ایک شبہہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب اس نے شوق سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کیا تو پھر اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پناہ کیوں پکڑی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مندرجہ ذیل حدیث اس شبہہ کو دور کرتی ہے: ابن سعد نے بخاری کی اسنادِ صحیح سے روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات میں سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے پہلے اس عورت کے پاس تشریف لائیں ۔ پس انھوں نے اس کے سر کو کنگھی کی اور اس کے بالوں کو مخضوب اور مزین کیا۔ پھر اس کو سکھایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اس کے پاس تشریف لائیں تو وہ کہہ دے کہ میں آپ سے اللہ کی پناہ پکڑتی ہوں ۔ امہات المومنین نے اس کو اس لیے یہ سکھایا کہ وہ نہایت خوبصورت تھی، شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا میلان ہماری نسبت اس سے زیادہ ہو، حالانکہ اس کا ارادہ نہ تھا۔ یہ تو ہے جونیہ کا قصہ جس پر پنڈت جی نے خیانت اور لاعلمی سے زبان درازی کی، جب کہ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ضبطِ نفس ثابت ہو تا ہے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس پر قابو رکھنے پر قادر تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب منکوحہ سے پناہ پکڑنے کا لفظ سنا، تو اسے فوراً طلاق دے کر رد کیا۔ اس کے حسن و جمال کی بھی پروا تک نہ کی، بلکہ اپنے اخلاق اور مروت کا ثبوت دیا کہ اسے دو کپڑے پہنا کر رخصت کیا۔ باقی رہا یہ کہ اس عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پناہ پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اور ایسی بے ادبی کی جس سے پیغمبر کی شان میں توہین پائی جائے، صریح کفر ہے، مگر تا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر مواخذہ نہیں کیا، اس لیے کہ اس نے عمداً گستاخی نہیں کی، بلکہ اس کو سکھا کر دھوکا دیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں وہ نومسلمہ بھی تھی، جس کو علم نہ تھا کہ یہ گستاخی ہے۔ پس بلحاظ اس کے وہ معذور سمجھی گئی، ہرچند وہ سزا پانے کی حق دار نہ تھی۔ جونیہ کے قصے کے بعد پنڈت جی نے ایک عربی عورت کا قصہ بیان کیا ہے جو جونیہ کے قصے کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے اور اس کی نقل میں بھی خیانت سے کام لیا ہے۔
Flag Counter