Maktaba Wahhabi

289 - 668
تعلیم دے کر روحانی تربیت اور دینی و دنیاوی اصلاح کرتے ہیں ۔ پس جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے باپ ٹھہرے تو لا محالہ ان کی ازواج ان کی مائیں ہوئیں اور ان سے نکاح حرام ہوا۔ اس کی حرمت کی دلیل میں پنڈت جی نے جس آیت کو پیش کیا اس میں اس کا اشارہ تک نہیں پایا جاتا۔ جہالت کی وجہ سے اس کا مطلب غلط سمجھا، حالانکہ سورۃ الأحزاب میں اس کی صریح دلیل موجود ہے، جس کو پنڈت جی نے نقل بھی کیا ہے، لیکن اس کے باوجود اسے سمجھ نہیں سکے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’(اے لوگو!) نبی (صلی اللہ علیہ وسلم )کی ازواج سے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )کے بعد نکاح نہ کرو۔‘‘ [سورۃ الأحزاب] یہ ان کے نکاح کی حرمت کی صریح دلیل ہے۔ وہ نہیں جس کو پنڈت جی نے پیش کیا۔ ان کا یہ کہنا کہ اس یک طرفہ ڈگری نے لوگوں کے منہ پر مہرِ خاموشی لگا دی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج سے بھی نکاح کر لینا چاہیے، حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ قرآن و حدیث نے اس کی وجہ بیان کر دی ہے کہ وہ مائیں ہیں ، جن سے نکاح کرنا حرام ہے، بحالیکہ ہماری حقیقی ماؤں سے، خواہ وہ کتنی ہی نیک ہوں ، ان کا مرتبہ کروڑہا دفعہ ان سے از حد زیادہ ہے۔ پنڈت جی نے طعن کرتے وقت اپنے سوامی جی کی یک طرفہ ڈگری کا خیال نہیں کیا جنھوں نے آریہ کی سب بیوہ عورتوں کو نکاحِ ثانی سے روکا۔ اس اعتراض کے جواب میں فرماتے ہیں : جب سلسلہ نسل منقطع ہو گیا تب بھی خاندان کا نشان جاتا رہے گا، اس کے علاوہ عورت اور مرد رانڈ اور رانڈوی ہو کر زنا کاری وغیرہ کے مرتکب ہوں گے۔ اس کے جواب میں فرماتے ہیں : نیوگ کر کے اولاد پیدا کریں ۔ (ستھیارتھ ب ۴ صفحہ: ۱۱۲) تعجب کی بات ہے کہ اہلِ اسلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج سے نکاح کی حرمت کی معقول وجہ بتاتے ہیں ، لیکن سوامی جی نے تو غضب کر دیا وہ آریہ کی تمام بیوہ عورتوں کو نکاح سے بند کرتے ہوئے نیوگ کا حکم کرتے ہیں جو نہایت شرم ناک رسم ہے۔ علاوہ ازیں وید میں ماں ، بہن اور بیٹی کے نکاح کی حرمت کا چونکہ ذکر تک موجود نہیں ۔ اگر ہوتا تو سوامی جی اس اہم مسئلے کو ستھیارتھ پرکاش میں ضرور ذکر کرتے۔ پس اس بنا پر اگر کوئی مخالف پنڈت جی سے یہ سوال کرے کہ جس صورت میں وید میں ماں کی حرمت کا ذکر نہیں ، تو تم نے کیوں یک طرفہ ڈگری دے کر عوام کو ماں کے نکاح سے بند کر دیا
Flag Counter