Maktaba Wahhabi

229 - 668
استقامت سے ان کا مقابلہ کر رہے ہیں ، تب آپ نے اسّی (۸۰) مرد اور عورتوں کو حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی امارت کے تحت حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ اس جگہ نجاشی عیسائی بادشاہ کی حکومت تھی، لیکن کفارِ مکہ نے وہاں جا کر بھی اس بادشاہ کے پاس ان کی شکایت کی کہ تیرے ملک میں ایسے لوگ آئے ہیں جو مسیح علیہ السلام کی توہین کرتے ہوئے اس کو اپنی مثل انسان سمجھتے ہیں ۔ بادشاہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کو بلا کر ان سے سورت مریم، جس میں مسیح علیہ السلام کی پیدایش کا ذکر ہے، سن کر کہنے لگا کہ اس میں مسیح علیہ السلام کی توہین نہیں ، بلکہ ان کی عزت اور مرتبے کا ذکر ہے۔ انجام کار وہ بادشاہ مسلمان ہو گیا۔ علاوہ ازیں حج کے موسم میں مدینے کے بارہ آدمی اسلام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرتے ہوئے مدینے میں چلے گئے، اس کا نام بیعتِ عقبہ ہے۔ دوسرے سال میں مدینے سے آکر پچاس آدمی آپ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ پھر مدینے میں جا کر اسلام کی تبلیغ شروع کی تو اکثر قبائل اسلام میں داخل ہوئے۔ اس کا نام بیعتِ عقبہ ثانیہ ہے (ابن ہشام وغیرہ)۔[1] ان واقعات نے آفتابِ تاباں کی طرح ثابت کر دیا کہ اسلام اپنی صداقت کی وجہ سے تلوار کے بغیر بھی پھیل سکتا ہے، بلکہ اس نے پھیل کر دکھایا۔ جب کفار نے اسلام کو دنیا میں شائع ہوتے ہوئے دیکھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مع صحابہ کے سخت مصیبتیں پہنچانی شروع کیں ، حتی کہ ان کے قتل کرنے کے لیے کمیٹیاں قائم ہوئیں جن میں قتل کی تدبیریں اور مشورے ہوا کرتے تھے۔ جب ان کا ظلم اور عناد حد سے بڑھ گیا، جس کے انسداد کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مع صحابہ کے مکے کو چھوڑ کر مدینے کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ مکے میں تو مسلمانوں کی جانیں دشمنوں کی مصیبتوں کی زنجیروں سے ایسی گرفتار تھیں ، جن سے رہائی مشکل تھی تو وہ تلوار کیسے چلا سکتے تھے؟ اگر وہ اتنی طاقت کے مالک ہوتے تو وہاں سے ہجرت ہی کیوں کرتے؟ مزید برآں یہاں ہم اسلام کے چند ایسے احکام، جن سے اس امر کی وضاحت ہو جائے گی کہ اسلام بزور شمشیر نہیں پھیلایا گیا، بیان کرتے ہیں ۔ ٭٭٭
Flag Counter