Maktaba Wahhabi

219 - 668
ہو جاتے، کیوں کہ قرآن و حدیث میں ترکِ عبادت خصوصاً دعا کو چھوڑنا تکبر قرار دیا گیا ہے۔ پس جب ترکِ دعا سے تکبر لازم آیا تو انبیا علیہم السلام اس کو چھوڑنے سے معصوم نہ رہے، پس معصوم کے دعا کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ گناہ گار تھا، جیسا کہ قرآن میں اس کی نظیر مذکور ہے۔ اگر کسی آدمی کو رزق نہ ملنے کی وجہ سے بھوک ایسا تنگ کرے کہ مرنے تک نوبت پہنچ جائے۔ پس ایسی اضطراری صورت میں اس کو مردار کھا کر جان بچانا جائز ہے۔ ایسے شخص کے بارے میں قرآنی ارشاد ہے: ﴿لا إِثم علیہ﴾ ’’یعنی اسے مردار کھانے میں کوئی گناہ نہیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ ’’لا‘‘ جو نفی جنس کا ہے، مردار کھانے والے سے ہر قسم کے گناہ کی نفی کرتا ہے۔ باوجود اس کے وہ بخشش کا محتاج ہے۔ پس اسی طرح انبیا علیہم السلام کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ باجود گناہ سے منزہ ہونے کے وہ بھی بخشش کے محتاج ہیں ، بحالیکہ ان میں کسی قسم کا گناہ نہیں ۔ فافھم انبیا علیہم السلام باوجود معصوم ہونے کے پھر خدا سے بطور عبادت کے بخشش اور عصمت کے درجات میں ترقی کرنے کے لیے عصمت طلب کیا کرتے تھے، بحالیکہ ان میں عصمت بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس کی نظیر انجیل میں بھی مذکور ہے کہ مسیح نے بھی اپنے شاگردوں کو دعا سکھائی کہ ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے۔ (متی باب ۶ درس ۱۱) اسی باب کے درس نمبر ۲۵۔ ۲۶ میں کہتا ہے: ’’اپنی جان کا فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پیئں گے؟ ہوا کے پرندوں کو دیکھو، نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیں ۔ نہ کوٹھڑیوں میں جمع کرتے ہیں ، تو بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے۔‘‘ پس جس طرح باوجود ایسے یقینی توکل کے پھر روٹی مانگنے کی دعا سکھائی گئی، ٹھیک اسی طرح انبیا علیہم السلام کو باوجود معصوم ہونے کے ان کو بخشش کی دعاؤں کا حکم کیا گیا۔ اگر مسیحی دوست یہ سوال کریں کہ انبیا علیہم السلام عموماً اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم خصوصاً معصوم تھے تو کیا جھوٹ سے دعا کرتے وقت اپنے گناہوں کا اعتراف کیا کرتے تھے؟ تو اس کا جواب قریب ہی گزر چکا ہے اور یہ شبہہ مسیح پر بھی ہو سکتا ہے۔ دیکھو: مرقس باب ۱۰ درس ۱۸۔ یسوع نے اس سے کہا: ’’تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے؟ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا۔‘‘ دیکھو مسیح کیسے صاف الفاظ میں اپنے نیک ہونے سے استفہاماً انکار اور نہ نیک ہونے کا
Flag Counter