Maktaba Wahhabi

210 - 668
دوم: اس کے اثر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت ظاہر کرنا مقصد تھا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ کفار جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سنتے اور دیگر معجزات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے دیکھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحر، یعنی جادوگر کہہ دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر ڈال کر ظاہر کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر گز ساحر نہیں ہیں ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جادو گر ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر ہی نہ ہوتا، کیوں کہ جادوگر پر جادو کا اثر نہیں ہو سکتا، کیوں کہ وہ جادو کے اثر کو اپنے جادو سے زائل کر سکتا ہے۔ پنڈت جی سے ہم دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ ویدوں کے رشی اگنی وَایو وغیرہ عناصر تھے یا انسان۔ اول تو ان کے انسان ہونے کا ثبوت ہی نہیں ، اگر وہ بقول آپ کے انسان تھے تو ان میں بھی انسانی عوارض (مرض) وغیرہ کا پایا جانا ضروری ہے۔ پس جس میں انسانی عوارض پائے جاتے ہیں تواُس پر جادو کا اثر بھی ہو سکتا ہے۔ آپ نے پیغمبر اور رِشی پر جادو کا اثر نہ ہونے کے بارے میں کوئی وید منتر نقل نہیں کیا۔ فافہم یاد رہے کہ فتح الباری میں اس حدیث کے ماتحت بعض اہلِ بدعت اور ملحدین کا انکار لکھا ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے۔ چنانچہ سورت فرقان میں کفار کا قول حکایت کیا گیا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مسحور کہتے تھے۔ مسحور کے معنی جس پر جادو کا اثر ڈالا جائے۔ پس چونکہ حدیث نے کفار کے قول کی تصدیق کر دی، لہٰذا یہ حدیث غلط ہے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ دعویٰ بالکل غلط، باطل اور کفر ہے، کیوں کہ مسحور کے معنی یہ نہیں کہ جس پر جادو کا اثر ڈالا جائے، بلکہ اس کے معنی ہیں جادو سکھایا ہوا، یعنی جو شخص کسی سے جادو سیکھتا ہو، اسے مسحور کہا جاتا ہے، جیسا کہ بعض تفاسیر میں اس کی تصریح ہے اور قرآن بھی اس کی تصدیق کرتا ہوا سورت مدثر میں بیان کرتا ہے کہ کفار کہتے تھے، یہ قرآن کوئی چیز نہیں ، مگر جادو ہے جو کسی جادوگر سے نقل کیا جاتا ہے۔ پس کفار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی جادوگر کا شاگرد سمجھنے کی بنا پر مسحور جانتے تھے اور جادو سیکھ کر فارغ ہونے والے کا نام ساحر رکھ دیتے تھے۔ اس کی تائید اس قاعدے سے بھی ہوتی ہے جو کتبِ صرف، معانی اور تفاسیر وغیرہ میں ہے کہ اسمِ مفعول کا صیغہ کبھی اِسم فاعل کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ پس اس کے بموجب مسحور کے معنی ساحر کے ہوئے، یعنی کفار آپ کو مسحور کہہ کر ساحر مراد لیا کرتے تھے۔ اس تقریر سے ثابت ہوا کہ یہ صحیح حدیث قرآن کے خلاف ہرگز نہیں ، بلکہ اس کی مصدق و عین موافق ہے اور اس کا انکار صریح کفر و الحاد ہے۔
Flag Counter