Maktaba Wahhabi

200 - 668
پس اس لغت کے مطابق آیت کے یہ معنی ہوئے: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کو پوشیدگی میں حیران اور غمگین پایا۔ پس تسلی کی اور ہدایت بخشی، یعنی خیر اور شر دونوں کی حیرانی کو دور کر دیا۔ خیر میں حیرت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے کفر کو دیکھ کر دل میں غم اور حسرت کیا کرتے تھے کہ کاش یہ لوگ ایمان لا کر جہنم کے عذاب سے بچ جائیں ۔ شر کی حیرت یہ ہے کہ مولا کریم نے آپ کو کفار کے شر سے محفوظ رکھا۔ پھر لکھا ہے: ’’الضلالۃ الحذق بالدلالۃ‘‘ یعنی ضلالت دلیل کے ساتھ دانائی اور عقلمندی کو کہا جاتا ہے۔ پس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کو حاذق ذی عقل دلیل اور برہان کے ساتھ پایا۔ پس آپ کو حکمت اور علم کا راہ دکھایا، یعنی آپ کا وجود مبارک برہان کے لحاظ سے اس امر کا ثبوت دیتا تھا کہ آپ تمام انبیائ علیہم السلام کے سردار اور قیامت تک وحی کے حامل ہونے کے قابل ہیں ۔ پس خدا نے آپ پر ہر قسم کی وحی، جو پہلے انبیا علیہم السلام کو ہوئی تھی، نازل کر کے ممتاز فرمایا۔ علاوہ ازیں وحی کے نزول سے پہلے زمانے کو، جس میں آپ کو علم ِقرآن نہ تھا، ضلالت سے تعبیر کیا گیا اور بعد کے زمانے کو ہدایت سے، جیسا کہ تفاسیر میں ہے۔ ناظرین! آیتِ مذکورہ کے کیسے پاکیزہ معنی ہیں ، جن میں ذرا بھر بھی اعتراض کی گنجایش نہیں ، لیکن پادری صاحب نے لا علمی کی وجہ سے اس پر اعتراض کرتے ہوئے اپنے گھر کی طرف خیال نہیں کیا کہ کتنے چور اور ڈاکو اس میں خرابی کر رہے ہیں ۔ اگر پادری صاحب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے خبری کے زمانے کو گناہ گاری کہتے ہیں تو یہی اعتراض بعینہٖ خدا پر بھی وارد ہوتا ہے، جیسا کہ پیدایش کے باب نمبر (۶) درس نمبر (۵ تا ۸) میں لکھا ہے: ’’خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بڑھ گئی ہے اور اس کے دل کے تصور اور خیال دن بدن سراسر بد ہی ہوتے ہیں ، تب خداوند زمین پر انسان کے پیدا کرنے سے پچھتایا اور نہایت دلگیر ہوا۔ کہا کہ میں ان کے بنانے سے پچھتاتا ہوں ۔‘‘ اس سے صاف ثابت ہوا کہ خدا بے علم ہے۔ اگر وہ غیب جاننے والا ہوتا تو انسان کو پیدا کر کے مخلوق کی طرح غمگین نہ ہوتا اور نہ پچھتاتا۔ معاذ اﷲ! خدا پر بھی بے علمی کا زمانہ آیا تھا۔ اگر اسے اس بات کا یقین ہوتا تو بد انسان کو پیدا ہی کیوں کرتا؟ تعجب کی بات ہے کہ عیسائی لوگ کس منہ سے
Flag Counter