Maktaba Wahhabi

172 - 668
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں ’’أنا خیر‘‘ استعمال کیا۔ (سورۃ الزخرف: ۵۲) افسوس کہ ہمارے زمانے میں مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی ابلیس اور فرعون کی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں ’’أنا خیر‘‘ کا ترجمہ استعمال کرتے ہوئے تکبر اور کفر کا بوجھ اپنے سر پر اٹھایا اور سچے رسول کی توہین کی، چنانچہ فرماتے ہیں : ’’بہترم من از مسیح بے پدر‘‘ (ازالہ اوہام) پھر یہ بھی ارشاد ہے: ’’ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو، اس سے بہتر غلام احمد ہے۔‘‘ (درثمین اردو، مطبع قادیان) پس جس طرح سچے انبیا علیہم السلام کے مقابلے میں ’’أنا خیر‘‘ کو استعمال کرنا کذب و کفر، شیطان وفرعون اور دجال وغیرہ کا فعل ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کفریہ فعل کا کیونکر ارتکاب کر سکتے تھے؟ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی پرہیز کیا اور عوام کو بھی روکا۔ فافھم اب ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ مذکورہ بالا حدیثوں میں یونس علیہ السلام کی خصوصیت کیوں آئی؟ کیا دیگر انبیا علیہم السلام کے مقابلے میں ’’أنا خیر‘‘ کا استعمال جائز ہے؟ سو اس کا جواب ہمیں حضرت یونس علیہ السلام کے قصے میں ملتا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: ’’آپ اپنی قوم سے اکتا گئے اور ان سے غصے ہو کر ہجرت کر گئے۔ بقول مفسرین یہ ہجرت خدا کے اذن کے بغیر تھی، جس میں کچھ بے صبری پائی گئی، پھر سمندر کے کنارے پر پہنچ کر کشتی پر سوار ہوئے اور وہاں سے دریا میں ڈالے گئے اور ان کو مچھلی نے نگل لیا اور اس کے پیٹ کی تنگی اور اندھیروں میں خدا تعالیٰ سے دعا اور نماز ادا کرتے رہے۔ اگر نماز ادا نہ کرتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے، پھر اللہ نے ان کو مچھلی کے پیٹ سے نکالا اور قوم کی طرف بھیجا۔ (سورت انبیائ، والصافات، جامع البیان) مچھلی کے پیٹ میں جو نہایت تنگ جگہ ہے، صبر سے اللہ کی نماز ادا کرنا، ایسا عظیم الشان صبر ہے جس نے پہلی بے صبری کو معدوم کر دیا۔ اب کسی نبی کو یا غیر نبی کو کوئی حق نہیں کہ ان کی پہلی بے صبری پر کہے کہ میں ان سے افضل یا بہتر ہوں ۔
Flag Counter