Maktaba Wahhabi

131 - 668
زیادتی کے ٹھہرے۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’کوثر کے معنی خیرِ کثیر کے ہیں ، جو اللہ تعالیٰ نے خصوصیت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی اور جنت والی نہریں بھی اسی خیرِ کثیر سے ہیں ۔‘‘ (بخاري، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ کوثر)[1] کوثر جب بڑی کثرت اور خیرِ کثیر کے معنوں میں استعمال کیا گیا تو مفسرین کے نزدیک اس میں بڑی وسعت ہے، پس یہ باعتبار عموم کے بہت چیزوں کو شامل ہے۔ کوثر سے مراد اسلام بھی ہے، کوثرسے وہ فضائلِ کثیرہ اور محامدِ جمیلہ بھی مراد ہیں ، جو فخرِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود مبارک میں داخل ہیں ۔ کوثر سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں ۔ یہ معنی صاحبِ صحاح اللغات نے لکھے ہیں ۔ (رحمۃللعالمین، جلد ۳، خصوصیت نمبر ۱۱، صفحہ ۴۱ تا ۴۴) لیکن کوثر کے جو صحیح معنی حدیث میں وارد ہوئے ہیں ، وہ ان سب سے بہت زیادہ صحیح اور یقینی ہیں ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: ’’ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ تھے کہ یکایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونگھ آئی، پس ناگہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہنستے ہوئے آسمان کی طرف سر اُٹھایا۔ ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہنسنے کی کیا وجہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی مجھ پر ایک سورت اتری ہے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ کوثر کو پڑھ کر سنایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جانتے ہو کوثر کیا چیز ہے؟ ہم نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول جانے۔ فرمایا: وہ ایک نہر ہے، جس کا رب نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ وہ بہت ہی بھلائیوں والی ہے، وہ ایک حوض ہے جس پر قیامت کے دن میری امت وارد ہوگی، اس کے برتن آسمان کے ستاروں کی گنتی کے برابر یعنی بے شمار ہیں ۔ پس کچھ آدمیوں کو اس سے دھکیل دیاجائے گا۔ میں کہوں گا: یا رب یہ میرے امتی ہیں ۔ پس خدا تعالیٰ فرمائے گا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جانتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان لوگوں نے دین میں نئی نئی بدعتوں کو نکالا۔‘‘ مسلم اور امام احمد کی روایت میں ’’في الجنۃ‘‘ کا لفظ بھی وارد ہے۔ (ابن کثیر تحت آیت مذکورہ) [2]
Flag Counter