Maktaba Wahhabi

122 - 668
متوجہ ہونے میں خدا سے دعا کرنے اور اجازت کے انتظار کی کیا ضرورت تھی؟ قبلے کی طرف نماز پڑھنا بھی قیام و رکوع اور سجود کی طرح فرض ہے اور فرض اجتہاد و اختیار سے نہیں بنایا جاتا، اس کے لیے نصِ قطعی اور خدا کے حکم کی ضرورت ہوتی ہے۔ خیر یہ مسئلہ تو ضمناًآ گیا، اب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شرف و اکرام کا استدلال بیان کرتے ہیں ۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجدالحرام، بیت اللہ۔ میں نے پھر عرض کی کہ اس کے بعد پھر کون سی مسجد بنائی گئی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد اقصیٰ، یعنی بیت المقدس۔ میں نے کہا: ان کے درمیان کتنا عرصہ تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چالیس سال کا۔‘‘ (بخاری ومسلم، مشکاۃ، باب المساجد) [1] بیت اللہ کے بعد مسجد اقصیٰ چالیس سال کے عرصے میں بنائی گئی اور اسے انبیا علیہم السلام کا قبلہ بھی مقرر کیا گیا، جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ تھے۔ خدا تعالیٰ نے ہزارہا انبیا علیہم السلام کے مقابلے پر اکیلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو قبول فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ قبلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے موافق مقرر کر دیا۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف دعائی مرتبہ ان سے فائق تر نہ ہوتا توان انبیا علیہم السلام کا قدیم و مضبوط قبلہ چھڑا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ قبلہ مقرر نہ کیا جاتا۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انبیا علیہم السلام سے اعلیٰ و اشرف ہونے کی دلیل ہے۔ علاوہ ازیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وطن عرب خصوصًا مکے اور مدینے کو جو مرتبہ و شرف حاصل ہے، وہ کسی نبی کے شہر یا وطن کو نہیں ملا۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہماالسلام دونوں نے جب مکے میں کعبہ کو تعمیر کیا تو دونوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدایش و نبوت کے لیے خدا سے دعا مانگی: ’’ اے اللہ! مکہ والوں میں ایک رسول ان کی نسل ہی سے مبعوث فرما۔‘‘(سورۂ بقرہ: ۱۲۹) اس دعا کے سبب، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کی گئی، مکہ کو وہ شرف حاصل ہوا جو دنیا میں کسی شہر کو حاصل نہیں ہے۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں مکے کو حرم بنایا گیا۔ (سورت ابراہیم: ۳۵)
Flag Counter