Maktaba Wahhabi

103 - 668
دوسری حدیث سنن کبریٰ بیہقی، جلد ہفتم، باب الحیض علی الحمل میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، اس کی اسناد میں امام بخاری رحمہ اللہ کا واقع ہونا اور امام بیہقی رحمہ اللہ کا اس سے فقیہانہ استدلال کرنا اور جوہر نقی والے کا اس پر جرح سے خاموش رہنا، یہ تین امور اس حدیث کی صحت پر شاہد ہیں : ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں ایک دفعہ بیٹھ کرسوت کات رہی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جوتے جھاڑ کر صاف کر رہے تھے، پس اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک سے پسینہ جاری ہونے لگا، پس اس پسینے سے نور پیدا ہونے لگا اور میں حیران ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف دیکھ کر فرمایا: اے عائشہ رضی اللہ عنہا ! تو حیران کیوں ہوئی؟ میں نے عرض کی: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک سے پسینہ جاری ہوا اور اس پسینے سے نور پیدا ہونے لگا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو کبیر ہذلی شاعر دیکھتا تو وہ جان لیتا کہ اس کے شعر کے، جو اس نے اپنے محبوب کے حق میں کہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ حق دار ہیں ، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا شعر پورا صادق آتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو کبیر کیا کہتا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا شعر پڑھ کر سنایا: فإذا نظرت إلیٰ أساریر وجھہ برقت کبرق العارض المتھلل ’’اے مخاطب! جب تو اس کے چہرے کی لکیروں اور نشانیوں کی طرف نظر کرے تو وہ ایسی چمکتی ہیں جسے چمکنے والے بادل سے شعلہ مارنے والی بجلی جلوہ گر ہوتی ہے۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’پس میری طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور میری دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا: اے عائشہ رضی اللہ عنہا! میری طرف سے تجھے اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا کرے، جس طرح تونے مجھے خوش کیا، میں تجھے ایسا خوش نہ کر سکا۔‘‘[1] اگر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینے سے نور پیدا ہو کر نکلا نہ دیکھتیں تو اس کی تشبیہ بجلی کے ساتھ، جس کا پر تو اور درخشانی بادل سے نکلتے وقت نہایت تیز ہوتی ہے، نہ دیتیں ۔ ایسا نور جو انبیا علیہم السلام کے وجود میں عموماً اور سراج منیر صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں خصوصًا بکثرت موجود تھا اور کبھی
Flag Counter