Maktaba Wahhabi

479 - 699
’’جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں اپنی(فرض نماز)مکمل کر لے تو اپنی نماز کا کچھ حصہ گھر کے لیے چھوڑ دے،کیوںکہ اﷲ تعالیٰ گھر میں پڑھی گئی نماز کے ذریعے اس کے گھر میں خیر و برکت کرتا ہے۔‘‘ مسند احمد و ابی یعلی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ایک دوسرے صحابی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث بیان کی ہے اور اس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ جب مسجد میں فرض پڑھ کر گھر کو لوٹے تو:((فَلْیُصَلِّ فِيْ بَیْتِہٖ رَکْعَتَیْنِ}[1] ’’اسے چاہیے کہ اپنے گھر میں(کم از کم)دو رکعتیں پڑھے۔‘‘ اس سے واضح ہو گیا کہ گھر میں جس نماز کی ترغیب دلائی گئی ہے،وہ فرض نہیں بلکہ نفلی نماز ہے۔اگرچہ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے بعض اہلِ علم سے نقل کیا ہے کہ اس سے کبھی کبھار گھر میں بھی فرض نماز(باجماعت)ادا کرنا مراد ہے،تاکہ عورتیں بھی اقتدا کر سکیں جو مسجد کو نہیں جاتیں۔جب کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس مفہوم کا بھی احتمال تو ہے،لیکن راجح بات پہلی ہی ہے کہ اس سے مراد نفلی نمازیں اور سنتیں وغیرہ ہیں نہ کہ فرائض۔شیخ محی الدین نے سختی کے ساتھ کہا ہے کہ اس سے فرض ہر گز مراد نہیں۔[2] بہرحال ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اپنے گھروں میں بھی کچھ نماز پڑھا کرو،انھیں قبرستان مت بنادو۔اس کے اہلِ علم نے متعدد مفہوم بیان کیے ہیں: 1۔ پہلا یہ کہ اپنے آپ کو مُردوں کی طرح نہ بنا دو،کیونکہ وہ اپنے گھروں یعنی قبروں میں نماز نہیں پڑھتے۔ 2۔ دوسرا مفہوم یہ کہ گھروں کو صرف سونے کی جگہ ہی نہ بنا دو کہ ان میں کوئی نماز نہ پڑھو۔نیند موت کی بہن ہے اور میت نماز نہیں پڑھتی۔ 3۔ تیسرا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص گھر میں نماز نہیں پڑھتا،اس نے اپنے آپ کو گویا میت اور اپنے
Flag Counter