Maktaba Wahhabi

515 - 699
امام طبری رحمہ اللہ کا حل: امام طبری رحمہ اللہ نے نفی و اثبات کی شکل میں پائے جانے والے اس تعارض و اختلاف میں اس طرح موافقت و مطابقت پیدا کی ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ مستقل نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خانہ کعبہ میں موجود رہے اور انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا،جبکہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ شاید کسی کام سے کچھ وقت کے لیے غائب ہوگئے ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے نہ دیکھ سکے ہوں،اس بات کی تائید مسند طیالسی کی ایک جید سند والی روایت سے ہوتی ہے،جس میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: {دَخَلْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فِي الْکَعْبَۃِ،فَرَأَیٰ صُوَرًَا فَدَعََا بِدَلْوٍ مِّنْ مَّائٍ فَأَتَیْتُہٗ بِہٖ فِضَرَبَ بِہِ الصُّوَرَ}[1] ’’میں کعبہ شریف میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں تصویریں بنی دیکھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ڈول طلب فرمایا،جو میں لے کر آیا،اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تصویریں مٹا دیں۔‘‘ اس روایت سے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا پانی لانے کے لیے خانہ کعبہ سے کچھ وقت کے لیے غائب ہونا ثابت ہوتا ہے۔امام قرطبی رحمہ اللہ کے بقول اس غیاب کے باوجود ان کا نماز کی نفی کرنا دراصل اس لیے تھا کہ وہ بہت جلدی پانی لے کر واپس لوٹ آئے تھے،لہٰذا اس غیاب کو انھوں نے کوئی خاص اہمیت نہ دیتے ہوئے نماز کی نفی کر دی اور یہ بھی تب ہے،جب اس واقعے کو فتح مکہ کے موقع پر وقوع پذیر مانا جائے،بصورتِ دیگر پھر عمر بن شبّہ نے اپنی ’’کتابِ مکہ‘‘ میں جو روایت بیان کی ہے،اس سے بھی حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے نہ دیکھ سکنے ہی کا پتا چلتا ہے،چنانچہ اس حدیث میں ہے: {دَخَلَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم الْکَعْبَۃَ،وَدَخَلَ مَعَہٗ بِلَالٌ،وَجَلَسَ أُسَامَۃُ عَلٰی الْبَابِ فَلَمَّا خَرَجَ وَجَدَ أُسَامَۃَ قَدِ احْتَبٰی فَأَخَذَ بِحَبْوَتِہٖ فَحَلَّھَا}[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں داخل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ
Flag Counter