Maktaba Wahhabi

243 - 699
ہے،چنانچہ موصوف اپنی اس کتاب(ص:164)میں لکھتے ہیں کہ اس زیر بحث مسئلے کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے،کیونکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ مسلمان کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ نماز میں سب سے اکمل و احسن ہیئت و صورت میں داخل ہو،کیونکہ معجم طبرانی اوسط،سنن بیہقی اور معانی الآثار طحاوی میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: {فَإِنَّ اللّٰہَ أَحَقُّ مَنْ تُزَیِّنُ لَہُ}[1] ’’بے شک اﷲ تعالیٰ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کے لیے زینت اختیار کی جائے۔‘‘ سلف صالحین کے عرف عام میں یہ اچھی صورت شمار نہیں کی گئی کہ ننگے سر رہنے اور ایسے ہی چلنے پھرنے اور اسی طرح عبادت گاہوں(مساجد)میں داخل ہونے کی عادت بنا لی جائے،بلکہ یہ تو ایک مغربی عادت ہے،جو بہ کثرت اسلامی ممالک میں اس وقت سے در آئی ہے،جب سے وہ ان ممالک میں(استعمار کی حیثیت سے)داخل ہوئے اور اپنے ساتھ کتنی ہی فاسد و بدترین عادات لائے اور مسلمانوں نے ان کی نقالی و پیروی شروع کر دی،اس عادت اور ایسی ہی دیگر عاداتِ بد کو اپنانے کی وجہ سے مسلمان اپنے اسلامی تشخص ہی کو کھو بیٹھے ہیں،جبکہ یہ ہنگامی صورتِ حال اس لائق نہیں کہ اسے اپنے گذشتہ اسلامی عرف و تشخص کی مخالفت کا ذریعہ بنایا جائے اور نہ یہ عادت اس لائق ہے کہ اسے ننگے سر نماز ادا کرنے کے جواز کی دلیل بنا لیا جائے۔[2] اس کے علاوہ موصوف نے اس کتاب کے اسی مقام پر ننگے سر نماز کے جواز پر دلالت کرنے والی روایات میں سے ایک کو ضعیف اور دوسری کو سخت ضعیف بلکہ موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے۔ ایک عجوبہ: موصوف نے اپنی دوسری کتاب ’’سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ‘‘ میں جہاں عمامہ کی فضیلت پر دلالت کرنے والی یکے بعد دیگرے تین من گھڑت روایات نقل کی ہیں،وہاں ان کے بعد ان کے برے اثرات بھی ذکر کیے ہیں اور ایک بات یہ بھی لکھی ہے کہ دستار و عمامہ یا
Flag Counter