Maktaba Wahhabi

237 - 699
مواخذات و اعتراضات: موصوف کے اس اقتباس میں تین باتیں کہی گئی ہیں اور ان تینوں پر ہی مؤاخذات و اعتراضات وارد ہوئے ہیں۔مثلاً: 1۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ اگر خشوع کی نیت سے ننگے سر نماز پڑھی جائے تو یہ مستحب ہے،جیسا کہ فقہ السنۃ کے علاوہ خود فقہ حنفی کی کتب سے بھی ہم ذکر کر آئے ہیں۔اس استحباب کی کوئی دلیل نہیں ہے،بلکہ اس کے برعکس مولانا محمد داود غزنوی رحمہ اللہ کے فتوے میں ہم ذکر کر آئے ہیں کہ انھوں نے 29؍ جمادی الاولیٰ 1379ھ میں جو فتویٰ صادر فرمایا تھا،جسے انھوں نے اپنے زمانہ طالب علمی میں اپنے والدِ گرامی مولانا سید عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ سے سنا تھا،جو اس وقتِ تحریر سے بھی دس سال پہلے کی بات ہوگی،اس میں انھوں نے کہا تھا: ’’اگر تعبّد اور عاجزی اور خشوع و خضوع کے خیال سے(ننگے سر نماز پڑھی جائے تو یہ نصایٰ کے ساتھ تشبہُّ ہوگا،اسلام میں ننگے سر رہنا(سوائے احرام کے)تعبّد یا خشوع و خضوع کی علامت نہیں۔‘‘[1] شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل صاحب رحمہ اللہ نے بخاری شریف سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی مختلف کپڑوں کے ناموں والا حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کا ایک اثر نقل کر کے اس سے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا ہے: ’’اگر پورے کپڑے میسر ہو سکیں اور کوئی مانع نہ ہو تو تکلف سے مسکنت(و خشوع)کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔‘‘[2] اسی سلسلے میں فقہ السنۃ کی تحقیق و تعلیق کے طور پر لکھی گئی کتاب ’’تمام المنۃ‘‘ میں علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’خشوع کی نیت سے ننگے سر نماز کا استحباب دین میں ایک ایسے حکم کو جاری کرنا ہے،جس کی کوئی دلیل نہیں،سوائے رائے کے اور اگر یہ فعل حق ہوتا تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے ضرور اختیار فرماتے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا ہوتا تو ضرور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہوتا
Flag Counter