Maktaba Wahhabi

713 - 699
طوافِ بیت اﷲ سے روکنے والے صرف مشرکین ہی مراد ہیں،بلکہ ان کے ساتھ ہی چونکہ یہ آیت عام ہے،لہٰذا ہر مسجد سے روکنے والے ہر شخص کو شامل ہے۔تفصیل کے طالب سورت بقرۃ آیت(114)اور سورۃ التوبہ آیت(17-18)کی تفسیر دیکھ سکتے ہیں۔تفسیر ابن کثیر و قرطبی اور تفہیم القرآن وغیرہ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔سورۃ البقرۃ کی اس آیت(114)سے استدلال کرتے ہوئے نماز کے علاوہ اوقات میں مساجد کی تالا بندی کو ممنوع قرار دینے والی بات دل کو بھاتی ہے۔ لہٰذا متولیانِ مساجد کو چاہیے کہ وہ اس طرف توجہ مبذول فرمائیں اور مساجد کی تالا بندی کرنے اور لوگوں کو ان میں ذکر و فکر اور نماز و تلاوت جیسی عبادات سے روکنے کے بجائے ایک شخص کو نگران مقرر کر دیں،جو مسجد سے متعلقہ اشیا لاؤڈ سپیکر،قالین،کلاک،ویکیوم کلینر یا قالین صاف کرنے والی برقی مشین،پیتل کی ٹوٹیوں اور دوسری چیزوں پر نظر رکھے اور رات کے وقت بھی پہرے داری کرے،جسے پہرے دار یا مسجد کا خادم کہا جا سکتا ہے۔وہ ہر وقت موجود رہے اور مسجد کے دروازے کھلے رکھے،تاکہ وقت بے وقت آنے والوں کو اﷲ کا گھر کھلا ملے اور اس پر اﷲ کے گھروں سے روکنے کی یہ وعید صادق نہ آئے۔ دوسری رائے: لیکن اس کا کیا کیجیے کہ ہر مسجد میں خادم رکھنے یا پہرے دار مقرر کرنے کی ہر متولی میں ہمت نہیں ہوتی،لہٰذا وہ یا مساجد کا انتظام و انصرام کرنے والے اوقاف و اُمورِ اسلامیہ کے ادارے امام یا مؤذن پر پابندی عائد کر دیتے ہیں کہ وہ نماز کے وقت مسجد کو کھولیں اور نماز کے بعد اسے بند کر دیں اور یہ بھی چوری چکاری کی ایک مجبوری کے تحت ہوتا ہے،جو آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے در آئی ہے،کیونکہ آٹھویں صدی ہجری میں پیدا اور اسی میں فوت ہونے والے علامہ زرکشی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’مسجدوں کو بند نہ کرنے پر عمل سلف صالحین کے عہدِ مبارک میں تو ممکن تھا،لیکن اب ایسا نہیں،بلکہ اس سلسلے میں ایک دوسری رائے یہ ہے کہ آج کے دَور میں چونکہ جرائم بہت بڑھ چکے ہیں اور تو اور اﷲ کے گھروں سے چوری ہونے کا خدشہ بھی رہتا ہے اور مسجدوں میں گھس کر مسجدوں کے ملحقہ مکانوں یا دکانوں میں نقب زنی یا دیوار پھاڑ کر چوری کا اندیشہ بھی ہے،لہٰذا ان قباحتوں سے بچنے کے لیے مساجد کو بند کرنا جائز ہے۔‘‘[1]
Flag Counter