Maktaba Wahhabi

364 - 699
والی حدیث میں گزرے ہیں۔[1] اس طریق کے بارے میں علامہ ڈاکٹر عبدالقادر سندھی لکھتے ہیں کہ اس طریق کی سند تین وجوہات کی بنا پر سخت ضعیف ہے: 1۔ اس کی سند کا ایک راوی حسین،جس کا نام سعید بن داود المصیصی المحتسب ہے،اسے امام ابو داود و نسائی نے ضعیف و غیر ثقہ قرار دیا ہے،نیز علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب ’’دیوان الضعفاء والمتروکین‘‘ میں وارد کیا ہے۔[2] 2۔ اس کی سند کے ضعیف ہونے کا دوسرا سبب ایک دوسرا راوی حجاج بن محمد الاعور المصیصی بھی ہے،جو اختلاطِ فاحش میں مبتلا ہوگئے تھے اور جب ابن معین نے اختلاط کرتے دیکھا تو اس کے بیٹے سے کہا:’’لَا یَدْخُلُ عَلَیْہِ أَحَدٌ‘‘(کوئی شخص اس سے حدیث سننے اور لکھنے کے لیے اس کے پاس نہ آئے) 3۔ تیسرا سبب اس روایت کی سند میں پایا جانے والا انقطاع ہے،کیونکہ یہ واقعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ابن جریج نے بیان کیا ہے،حالانکہ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو نہیں پایا اور اس پر مستزاد یہ ہے کہ ابن جریج پر تدلیس التسویۃ کا الزام ہے،جو تدلیس کی بدترین قسم ہے۔حافظ صلاح الدین علائی نے ’’جامع التحصیل في أحکام المراسیل‘‘(2/538) میں امام بخاری کے استاد ابن المدینی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ابن جریج کسی ایک بھی صحابی سے نہیں ملے۔[3] فنی نقطۂ نظر سے ان طُرق کی یہ حالت ہے اور اب آئیے آپ کو ان کے بارے میں بعض کبار محدّثین کا فیصلہ سنائیں۔ فیصلہ: فریقِ ثانی نے دوسری دلیل کے طور پر حضرت اسماء بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کے واقعے پر مشتمل سنن ابو داود و بیہقی والی حدیث پیش کی ہے اور اس کے ضعف کی کچھ تفصیل تو گزر چکی ہے،اس کے بارے میں
Flag Counter