Maktaba Wahhabi

358 - 699
الفاظ سے ایسا کوئی مفہوم کشید کرنے کی کوئی گنجایش نہیں اور نہ اکثر اہلِ علم میں سے کسی نے کیا ہے،بلکہ علماے تفسیر نے لکھا ہے کہ یہ حکم عام ہے،تاکہ اگر کسی عورت کا چہرہ بے توجہگی کی وجہ سے ننگا ہو اور کسی کی نظر پڑ جائے تو وہ اپنی نگاہیں جھکا لے یا پھر کوئی عورت نافرمانی پر اتر آئی ہو اور وہ زیب و زینت کی نمایش کر رہی ہو اور ایسے بے پردہ و نیم عریاں حالت میں ہو تو نظر پڑتے ہی جھکا لیں،تاکہ اس کے حسنِ آوارہ کے فتنوں سے بچا جا سکے۔ دوسری دلیل فریقِ ثانی کی دوسری دلیل وہ حدیث ہے جو سنن ابی داود اور سنن کبریٰ بیہقی میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے،جس میں وہ بیان کرتی ہیں کہ(ان کی بہن)حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں،جبکہ وہ باریک کپڑے کا لباس پہنے ہوئے تھیں تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اعراض کیا۔(اس حدیث میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: {یَا أَسْمآئُ! إِنَّ الْمَرْأَۃَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِیْضَ لَمْ یَصْلُحْ لَھَا أَنْ یُّریٰ مِنْھَا إِلَّا ھٰذَا وَھٰذَا،وَأَشَارَ إِلٰی وَجْھِہٖ وَکَفَّیْہِ}[1] ’’اے اسماء! جب کوئی عورت بالغ ہوجائے تو اس کے لیے یہ صحیح نہیں ہے کہ اس کے اعضائے جسم میں سے اس اور اس کے سوا کچھ نظر آئے۔یہ کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرۂ اقدس اور دونوں ہاتھوں کی طرف اشارہ فرمایا۔‘‘ فریقِ ثانی کا کہنا ہے کہ اس حدیث کی رو سے عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ چہرہ اور ہاتھ ننگے رکھ لے اور یہ اعضا مقامِ ستر نہیں ہیں۔ جائزہ: یہ دلیل اگر صحیح سند سے مروی ہوتی تو اس اختلافی مسئلے میں فیصلہ کن ثابت ہوتی،جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔محدّثینِ کرام نے اس کی سند پر کلام کیا ہے اور اسے کئی وجوہات کی بنا پر ضعیف قرار دیا ہے۔خود امام ابو داود رحمہ اللہ اس حدیث کو ’’کتاب اللباس،باب فیما تبدی المرأۃ من زینتھا‘‘
Flag Counter