Maktaba Wahhabi

429 - 699
آئے تھے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پیچھے کو ہٹ آنے کے الفاظ سے پتا چلتا ہے کہ وہ آگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے سے دکھائی گئی۔ایسے ہی صحیح بخاری ومسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں: {عُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ وَأَنَا أُصَلِّيْ}[1] ’’میرے سامنے اس وقت آگ پیش کی گئی،جب کہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔‘‘ بخاری شریف کی کتاب التوحید میں اس حدیث کے الفاظ ہیں: {لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّۃُ وَالنَّارُ آنِفًا فِيْ عَرْضِ ھٰذَا الْحَائِطِ وَأَنَا أُصَلِّيْ} ’’ابھی نماز کے دوران میں اس دیوار کے پاس میرے سامنے جنت اور نارِ جہنم پیش کی گئیں۔‘‘ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ آگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائی گئی اور نماز کے دوران میں لائی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہی تھی۔یہ تمام امور اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز نہ توڑنا،ایسے میں نماز کے جواز کی دلیل ہے،خصوصاً جب کہ آگ یا اس جیسی کسی پوجی جانے والی چیز کو ہٹانا اختیار میں نہ ہو،جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے۔ اِضطرار واختیار: یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رکھیں کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں میں نماز کے جواز کی نوبت تب آئے گی،جب وہاں سے نکل کر کسی دوسری جگہ نماز پڑھ سکنا ممکن ہی نہ رہا ہو۔اگر وہاں سے نکلنا ممکن ہو تو نکل کر کسی مسجد یا کھلی جگہ میں نماز پڑھنا ہی ضروری ہے،لہٰذا وہ مقامات یا عبادت گاہیں جہاں کفر و شرک کیا جا رہا ہو،وہاں عبادتِ الٰہی نہ کی جائے،کیونکہ وہ مقام نجس وخبیث ٹھہرا۔اس بات کا پتا سورۃ التوبہ میں مذکور مسجد ضرار کے واقعے سے بھی چلتا ہے،کیونکہ وہاں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ کُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًام بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ مِنْ قَبْلُ﴾[التوبۃ:107] ’’اور ان میں ایسے(منافق)بھی ہیں،جنھوں نے ایک مسجد بنائی اس غرض کے لیے کہ
Flag Counter