Maktaba Wahhabi

366 - 699
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے واقعہ پر مشتمل حدیث صحیح ہوتی اور اس پر عمل کیا جا رہا ہوتا تو عورتیں غیر مردوں سے اپنے چہرے نہ ڈھانپتیں،خاص طور پر جبکہ وہ احرام کی حالت میں ہوتیں،مگر ایسا نہیں ہے،بلکہ وہ تو احرام میں بھی غیر محرم مردوں سے چہرے ڈھانپ لیتی تھیں،جو اس بات کی دلیل ہے کہ مذکورہ حدیث صحیح اور معمول بہ نہیں ہے۔ اگر علی وجہ التنزّل یہ مان ہی لیا جائے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور معمول بہ رہی ہے تو پھر اسے حکمِ حجاب کے نازل ہونے سے پہلے کے دور پر محمول کیا جائے گا اور نزولِ حجاب سے اس کے حکم کو منسوخ تسلیم کرنا پڑے گا،جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی مذکورہ احادیث سے پتا چلتا ہے۔جب وہ احرام کی حالت میں غیر محرم مردوں سے چہروں کا پردہ کیا کرتی تھیں تو احرام کے علاوہ عام حالت میں بالاولیٰ پردے کا حکم ہوگا۔[1] صرف اسی پر بس نہیں،بلکہ اہلِ علم کے نزدیک خالد بن دریک والی حدیث سے حجاب کے عدمِ وجوب پر ایک اور اصول کی رو سے بھی استدلال نہیں کیا جا سکتا۔ ایک اصول: وہ اصول یہ ہے کہ چہرے کے پردے کو واجب ثابت کرنے والے دلائل مسئلے کو اس کی اصل سے منتقل کر کے دوسرے حکم تک لے جانے والے ہیں اور چہرے کو ننگا رکھنے کے جواز پر دلالت کرنے والی احادیث مسئلے کو اس کے اصل حکم پر ہی قائم رکھنے والی ہیں،ایسے ہی علمائے اصول کے نزدیک معروف و طے شدہ بات یہ ہے کہ اصل حکم سے منتقل کرنے والے دلائل مقدم ہوں گے اور یہ اس لیے کہ اصل تو یہی ہے کہ کسی چیز کو اس کی حالتِ اصلیہ پر ہی باقی رہنے دیا جائے اور اگر کوئی ایسی دلیل مل جائے جو اسے اصل سے منتقل کر کے دوسرے حکم تک لے جائے تو یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اصل پر نئی ناقل دلیل کا حکم وارد ہوگیا ہے اور اس نے اصل کو بدل دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ ناقل کے پاس زیادہ علم ہے اور وہ ہے اصلی حکم میں تغیر و تبدیلی کو ثابت کرنا اور ’’وَالْمُثْبِتُ مُقَدَّمٌ عَلَی النَّافِيْ‘‘ ثابت کرنے والا نفی کرنے والے پر مقدّم ہوتا ہے۔ چہرے کے پردے سے تعلق رکھنے والے دلائل کے سلسلہ میں اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ
Flag Counter