Maktaba Wahhabi

376 - 699
ہوتا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ نہ جان پاتے کہ وہ خوبرو ہے یا بد صورت۔ ایسے ہی فتح الباری میں ابن بطال سے بھی حافظ ابن حجر نے نقل کیا ہے: ’’انھوں نے بھی اس حدیث سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ عورت کے لیے چہرے کا پردہ کرنا فرض نہیں ہے،لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس دعوے پر ان کا تعاقب بھی کیا اور کہا ہے کہ ان کی یہ بات محلِ نظر ہے۔‘‘ الغرض اس حدیث میں مذکور واقعہ سے فریقِ ثانی نے یوں دلیل لی ہے۔ چوتھی دلیل کا تجزیہ: لیکن علامہ ابن حزم اور ان کے دیگر ہمنواؤں کے اس استدلال پر دوسرے اہلِ علم نے ان کا تعاقب کیا ہے،اور علامہ موصوف کے الفاظ پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرید امین الہنداوی نے ’’اللباب في فرضیۃ الحجاب‘‘ میں لکھا ہے کہ نبیِ اکرم نے اس عورت کے لیے ننگے منہ رہنے کو کہاں برقرار رہنے دیا ہے اور اس حدیث کے الفاظ یا مفہوم یا اقتضاے نص کسی سے بھی تو برقرار رہنے دینے کا پتا نہیں چلتا،بلکہ ’’فقہ النظر في الإسلام‘‘ میں شیخ محمد ادیب کے بقول: ’’اس حدیث کا عام مفہوم تو اس بات کو اور پختگی دیتا ہے کہ غیر محرم عورت کو دیکھنا ناجائز ہے اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے برادرِ عمزاد کے فعل پر عملاً نکیر کرنا(ٹھوڑی سے پکڑ کر ان کا منہ گھما دینا)اس پر مستزاد ہے،اس حدیث کی رو سے وہ عورت حالتِ احرام میں تھی،لہٰذا اس کا چہرے کو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ننگا کر لینا اس کے لیے اس وقت جائز تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی طور پر فضل رضی اللہ عنہ کے فعل پر نکیر کرنا بگاڑ کا سبب بننے والی نظر کے سدِّ باب کے لیے تھا اور اس حدیث میں کوئی ایسی بات نہیں جو چہرے اور ہاتھوں کو ننگے رکھنے کے جواز کا اشارہ دیتی ہو۔‘‘[1] ’’الحلال والحرام في الإسلام‘‘(اللباب،ص:54)میں ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے جب اس واقعہ کو دلیل بنایا تو ’’الإعلام‘‘ میں شیخ صالح الفوزان نے ان کا تعاقب کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’موصوف کا اس واقعے سے غیر محرم عورت کے چہرے کو دیکھنے کے جواز پر استدلال کرنا
Flag Counter