Maktaba Wahhabi

460 - 699
’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایسی مسجد میں نماز کو مکروہ بلکہ غیر صحیح قرار دیا ہے۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ’’وَتُکْرَہُ الصَّلَاۃُ فِیْھَا مِنْ غَیْرِ خِلَافٍ أَعْلَمُہٗ،وَلَا تَصِحُّ عِنْدَنَا فِيْ ظَاھِرِ الْمَذْھَبِ لِأَجْلِ النَّھْيِ وَاللَّعْنِ الْوَارِدِ فِيْ ذٰلِکَ،وَلِأَجْلِ أَحَادِیْثَ أُخَرَ‘‘[1] ’’ایسی مساجد میں نماز مکروہ ہے اور اس میں میرے علم کے مطابق کوئی اختلاف نہیں۔ہمارے ظاہر مذہب کے مطابق وہاں پڑھی گئی نماز قبروں پر مساجد کے سلسلے میں وارد شدہ ممانعت اور لعنت کی وجہ سے صحیح نہیں ہے اور بعض دیگر احادیث کی وجہ سے بھی وہاں نماز صحیح نہیں ہے۔‘‘ نیز موصوف اپنے فتاویٰ میں فرماتے ہیں: ’’فَالْمَسْجِدُ الَّذِيْ عَلٰی الْقَبْرِ لَا یُصَلّٰی فِیْہِ،لَا فَرْضٌ وَلَا نَفْلٌ،فَإِنَّہٗ مَنْھِيٌّ عَنْہُ‘‘[2] ’’جو مسجد قبروں پر بنائی گئی ہو،ایسی مسجد میں فرض یا نفل کو ئی بھی نماز پڑھنا ممنوع ہے۔‘‘ قبرستان میں نماز،ایک،دو یا زیادہ قبریں: یہاں اس بات کی وضاحت بھی کر دیں کہ اگر مسجد کے بغیرکوئی قبرستان ہو یا کہیں دو ایک ہی قبریں ہوں تو وہاں نماز کے بارے میں کراہت کا حکم کس شکل میں ہو گا؟ صرف ایک ہی قبر کا ہونا کافی ہے یا کم از کم تین قبریں ہوں؟ اس سلسلے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ میں لکھا ہے کہ ہمارے اصحاب کا اس میں اختلاف ہے کہ قبروں کی حد تین ہے یا اکیلی قبر کے پاس نماز پڑھنے کی بھی ممانعت ہوگی،چاہے اس کے پاس دوسری قبر نہ بھی ہو۔اس اختلاف کے بارے میں دو قول مذکور ہیں،ایک یہ کہ وہاں کم از کم تین قبریں ہوں اور دوسرا یہ کہ ایک قبر کا حکم بھی یہی ہے۔[3] جب کہ موصوف نے اپنی دوسری کتاب ’’الاختیارات العلمیۃ‘‘ میں اسی کو ترجیح دی ہے
Flag Counter