Maktaba Wahhabi

687 - 699
کر بیٹھے گا تو نیند آجائے گی،لہٰذا اس سے ایک تو یہ کہ وضو ٹوٹ جائے گا،دوسرا نقصان یہ بھی ہوگا کہ اگر جمعہ کے دن دورانِ خطبہ ایسے بیٹھے گا تو نیند سے وضو کا ٹوٹنا تو ایک طرف وہ خطبہ بھی نہ سن پائے گا،جو ایک خسارے کا سودا ہے۔‘‘[1] انگلیوں میں انگلیاں ڈالنے کی چار صورتیں: علامہ بدر الدین الزرکشی نے متاخرین علما سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے انگلیوں میں انگلیاں ڈالنے کو چار صورتوں میں تقسیم کیا ہے: پہلی صورت: انسان نماز کی حالت میں ہو اور دورانِ نماز ہی اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈالے،اس صورت کی ممانعت و کراہت ذکر کی گئی احادیث میں بالصراحت موجود ہے،جس میں کسی قسم کے شک و شبہے کی کوئی گنجایش ہی نہیں ہے۔ دوسری صورت: آدمی مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھا ہو یا پھر گھر سے وضو کر کے مسجد کی طرف جانے اور نماز پڑھنے کا ارادہ ہو،تو یہ بھی ہر دو صورتوں میں نمازی کے حکم میں شمار ہوتا ہے،لہٰذا اس صورت کے ہر دو پہلوؤں میں بھی انگلیوں میں انگلیاں ڈالنا ممنوع فعل ہے،اس کی ممانعت بھی گذشتہ احادیث میں وارد ہوئی ہے۔ تیسری صورت: انسان مسجد میں تو ہو،لیکن نہ تو وہ ابھی کوئی نماز پڑھنے کا ارادہ رکھے اور نہ کسی دوسری نماز کے انتظار میں ہو،بلکہ نماز سے فارغ ہو کر نکلنے سے پہلے ویسے ہی مسجد میں کسی وجہ سے رُکا ہوا ہو تو اس کے لیے گنجایش موجود ہے کہ وہ انگلیوں میں انگلیاں ڈال لے،یہ جائز تو ہے،اگرچہ پرہیز ہی بہتر ہے،اس کے جواز پر دلالت کرنے والی احادیث بھی آگے چل کر ہم ذکر کرنے والے ہیں۔ چوتھی صورت: مسجد سے باہر کہیں ہو اور نماز کے لیے مسجد کی طرف بھی نہ آنے والا ہو تو اس مطلق صورت
Flag Counter