Maktaba Wahhabi

309 - 699
’’حجاب و پردے کے سلسلے میں خطابِ الٰہی عام ہے،لیکن جو چیز عمومیت و عادت سے خارج ہوجائے،وہ اپنے نظائر سے نکل جاتی ہے،پس جب کنیز کے بے پردہ پھرنے اور اس پر نظر پڑنے سے فتنہ و فساد یعنی اخلاقی بگاڑ پیدا ہونے کا خطرہ ہو تو انھیں اس سے منع کرنا واجب ہے۔‘‘ تھوڑا آگے چل کر شیخ الاسلام لکھتے ہیں: ’’اگر خوبصورت کنیز اور لڑکوں پر نظر ڈالنے سے بگاڑ پیدا ہونے کا خطرہ ہو تو ان سے نظر بچانا ضروری ہے،جیسا کہ اہلِ علم نے ذکر کیا ہے۔‘‘[1] اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ کنیزوں کے پردے کے مسئلے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مسلک جمہور اہلِ علم کے عدمِ وجوب اور علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کے وجوب کے درمیان والی راہ ہے اور اس طرح جمہور کے مسلک کی تائید کرنے والے آثار جو شیخ الاسلام نے ذکر کیے ہیں،ان میں اور ’’درء المفاسد قبل جلب المصالح‘‘ والے قاعدے کے مابین تطبیق و موافقت بھی پیدا کر دی ہے۔محقق و معلق کتاب ’’حجاب المرأۃ المسلمۃ ولبأسھا في الصلاۃ‘‘ نے مقدمہ میں اسی درمیانے مسلک کو جمہور کے مسلک کی نسبت اقرب اِلی الصواب قرار دیا ہے۔[2] علامہ ابن قیم رحمہ اللہ: اس سلسلے میں ان کے شاگردِ رشید اور محققِ شہیر علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی رائے اپنے جلیل القدر استاذِ گرامی سے ملتی جلتی ہے،چنانچہ شیخ حمود بن عبداﷲ التویجری نے اپنی کتاب ’’الصارم المشھور علی أھل التبرج والسفور‘‘ میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کا ایک اقتباس ’’إعلام الموقعین‘‘ سے نقل کیا ہے،جس میں وہ فرماتے ہیں: ’’ایک بدصورت آزاد بڑھیا کی طرف نظر کا حرام کیا جانا اور ایک انتہائی حسن و جمال کی مالک کنیز کی طرف نظر کا مباح ہونا(یہ صحیح نہیں بلکہ)یہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف(اگر منسوب بھی کر دی گئی ہو تو)سراسر جھوٹ پر مبنی نسبت ہے۔اﷲ تعالیٰ نے کہاں ایک کو
Flag Counter