Maktaba Wahhabi

294 - 699
ظاہر ہے کہ پازیب کی آواز میں کم فتنہ انگیزی ہے اور جب اس کم فتنہ انگیز فعل کی ممانعت کر دی گئی ہے تو پھر اس ہمہ فتنہ فعل کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں،بلکہ ہر اعتبار سے چہرے کے پردے والے مسلک ہی کی تائید ہوتی ہے۔ دوسری آیت: اسی مفہوم پر دلالت کرنے والی ایک دوسری آیت بھی سورۃ النور میں ہے،جس میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآئِ الّٰتِیْ لاَ یَرْجُوْنَ نِکَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْھِنَّ جُنَاحٌ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَھُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجٰتٍم بِزِیْنَۃٍ وَّاَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّھُنَّ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾[النور:60] ’’اور جو عورتیں جوانی سے گزر چکی ہوں اور نکاح کی امیدوار نہ ہوں،وہ اگر اپنی چادریں اتار کر رکھ دیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں،بشرطیکہ زینت کی نمایش کرنے والی نہ ہوں،تاہم وہ بھی حیا داری ہی برتیں تو ان کے حق میں اچھا ہے اور اﷲ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘ حضرت سعید بن جبیر،مقاتل،ضحاک اور قتادہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس آیت میں ’’قواعد‘‘ سے مراد وہ عورتیں ہیں جن کو بڑھاپے کی وجہ سے حیض آنا بند ہوچکا ہو اور وہ اولاد پیدا کرنے کی عمر سے گزر چکی ہوں۔اس آیت میں بوڑھی عمر رسیدہ خواتین کو جو کپڑے اتار کر رکھ دینے کی اجازت دی گئی ہے تو ظاہر ہے کہ اس سے عریاں ہو کر بیٹھنا ہرگز مراد نہیں،بلکہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہاں کپڑوں سے مراد(زیب و زینت کو چھپانے والی)اوپر کی بڑی چادر(جلباب)مراد لی ہے۔ تفسیر ابن کثیر کے مطابق حضرت ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم اور امام مجاہد،سعید بن جبیر،ابو الشعثاء،ابراہیم نخعی،حسن بصری،قتادہ،زہری اور اوزاعی رحمہم اللہ سبھی نے کپڑوں سے مراد جلباب یا ردا یعنی اوپر کی بڑی چادر ہی مراد لی ہے۔[1] جلباب وہ بڑی چادر ہوتی ہے،جس میں سرتاپا چہرہ سمیت عورت نے اپنے جسم کو ڈھانپا ہوا ہو،اس آیت سے یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ بوڑھی عورت کو شارع حکیم نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ جلباب یا چادر اتار دے،جس میں اس کا چہرہ بھی چھپا ہوا
Flag Counter