Maktaba Wahhabi

367 - 699
دونوں طرف ایک جیسے دلائل ہیں۔تب بھی یہ مذکورہ توجیہ اجمالی و ثابت ہے،جس سے چہرے کے حجاب کا وجوب ہی سامنے آتا ہے۔[1] اس اصول کے پیشِ نظر بات تو یہیں مکمل ہوجاتی ہے کہ چاہے فریقِ ثانی کے دلائل بھی فریقِ اول کے جیسے ہی کیوں نہ ہوں،پلہ فریقِ اوّل ہی کا بھاری رہے گا،کیونکہ ’’اَلنَّاقِلُ عَنِ الْأَصْلِ مُقَدَّمٌ‘‘ ’’اصل سے منتقل کرنے والا حکم ہی مقدّم ہوتا ہے۔‘‘ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ فریقِ ثانی کی طرف سے پیش کیے جانے والے دیگر دلائل بھی ذکر کر دیں اور ان کا جائز لیں،تاکہ علمی امانت ادا ہو جائے۔ تیسری دلیل: فریقِ ثانی کی تیسری دلیل وہ حدیث ہے،جو صحیح مسلم،سنن نسائی،دارمی،بیہقی اور مسند احمد میں حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جس میں وہ بیان کرتے ہیں: ’’شَھِدْتُّ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَوْمَ الْعِیْدِ فَبَدَأَ بِالصَّلَاۃِ قَبْلَ الْخُطْبَۃِ بِغَیْرِ أَذَانٍ وَّلَا إِقَامَۃٍ،ثُمَّ قَامَ مُتَوَکِّئًا عَلَیٰ بِلَالٍ فَأَمَرَ بِتَقْوٰی اللّٰہِ وَحَثَّ عَلٰی طَاعَتِہٖ وَوَعَظَ النَّاسَ وَذَکَّرَھُمْ ثُمَّ مَضَیٰ حَتّٰی أَتَی النِّسَآئَ فَوَعَظَھُنَّ وَذَکَّرَھُنَّ‘‘ ’’میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں نمازِ عید کے لیے حاضر ہوا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان و اقامت کے بغیر ہی خطبے سے پہلے نمازِ عید پڑھی،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا سہارا لیے(خطبے کے لیے)کھڑے ہوگئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تقویٰ و خشیتِ الٰہی اور اطاعتِ الٰہی کا حکم فرمایا اور لوگوں کو وعظ و تذکیر کی،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے پاس چلے گئے اور انھیں بھی وعظ و نصیحت فرمائی۔‘‘ عورتوں سے مخاطب ہو کر آپ نے فرمایا: {تَصَدَّقْنَ فَإِنَّ أَکْثَرَکُنَّ حَطَبُ جَھَنَّمَ،فَقَامَتْ امْرَأَۃٌ مِنْ سِطَۃِ النِّسَآئِ سَعْفَائَ الْخَدَّیْنِ فَقَالَتْ:لِمَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟} ’’کثرت سے صدقہ کیا کرو،کیونکہ تم میں سے اکثر جہنم کا ایندھن بننے والی ہیں۔عورتوں
Flag Counter