Maktaba Wahhabi

310 - 699
حرام اور دوسری کو مباح قرار دیا ہے؟ اﷲ تعالیٰ نے تو ارشاد فرمایا ہے: ﴿قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِھِمْ﴾[النور:30] ’’اے پیغمبر! لوگوں سے کہہ دیں کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔‘‘ ’’اﷲ تعالیٰ ایسے ہی اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حسین و خوبرو کنیزوں کی طرف نظریں دوڑانے کے لیے آنکھوں کو کھلا تو نہیں چھوڑا اور جب کسی کنیز پر نظر پڑنے سے اخلاقی بگاڑ و فتنہ کا خطرہ ہو تو اس پر نظر ڈالنا بھی بلاشبہہ حرام ہے۔یہ شبہہ یا اشکال دراصل اس طرح پیدا ہوا ہے کہ شارع نے آزاد عورتوں کے لیے تو حکم صادر فرمایا ہے کہ وہ اجنبی(غیر محرم)مردوں سے حجاب و پردے کے ذریعے اپنے چہرے چھپائیں،جبکہ کنیزوں پر یہ واجب نہیں کیا،لیکن یہ صرف ان کنیزوں کی نسبت ہے جو بیچاری کام کاج میں جُٹی رہنے والی ہوتی ہیں،البتہ وہ کنیزیں جنھیں ہم خوابی کے لیے منتخب کیا جا چکا ہو اور انھیں عادتاً حفاظت و پردے میں رکھا جاتا ہے،ایسی کنیزوں کے لیے اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں یہ مباح کیا ہے کہ وہ گلی کوچوں میں اور لوگوں کے اکٹھے ہونے کی جگہوں پر ننگے منہ پھرتی رہیں اور مردوں کو کہاں اجازت دی گئی ہے کہ وہ انھیں دیکھ دیکھ کر لطف اندوز ہوتے رہیں؟ یہ سراسر شریعتِ مطہرہ کی طرف منسوب کی گئی ایک غلط بات ہے۔‘‘ آگے موصوف نے ستر کی دو قسمیں بھی بیان کی ہیں:’’عَوْرَۃٌ فِي النَّظْرِ‘‘ اور ’’عَوْرَۃٌ فِي الصَّلَاۃِ‘‘ پھر بتایا ہے: ’’آزاد عورت(گھر میں)ننگے منہ اور ننگے ہاتھوں نماز تو پڑھ سکتی ہے،لیکن وہ اسی طرح بازاروں اور لوگوں کے جمع ہونے کی جگہوں پر نہیں جا سکتی۔‘‘[1] یہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے اقتباس کا ترجمہ ہے اور آزاد عورتوں اور کنیزوں کے پردے کے سلسلے میں ہم صرف اسی پر اکفا کرتے ہیں،کیونکہ اس میں بات واضح ہوگئی ہے اور ویسے بھی آج الحمد ﷲ غلامی کا مسئلہ ہی ختم ہوچکا ہے،جس سے کنیزوں کے پردے کا یہ مسئلہ درپیش آنا ہی نادر ہوگیا ہے۔ذٰلِکَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ تَعَالَیٰ۔
Flag Counter