Maktaba Wahhabi

692 - 699
علامہ عبیداﷲ رحمانی رحمہ اللہ نے ’’المرعاۃ شرح المشکاۃ‘‘ میں اس موضوع کی کافی تفصیلات ذکر کی ہیں۔امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اس سلسلہ کی بحث کے آخر میں لکھا ہے: ’’اس مسئلہ میں ظاہر ہونے والے اختلاف کے بارے میں یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ جن احادیث میں ممانعت وارد ہوئی ہے،وہ افرادِ امت کے لیے خاص ہیں اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی فعل کسی ایسے ارشاد کا معارض ثابت نہیں ہو سکتا،جو امت کے ساتھ خاص ہو،جیسا کہ کتبِ اصول کا مسلّمہ قاعدہ ہے۔‘‘[1] انگلیاں چٹخانا: دورانِ نماز،مسجد میں انتظارِ نماز کے دَوران میں یا نماز کے لیے آتے ہوئے انگلیوں میں انگلیاں ڈالنے کی ممانعت کے اس تذکرے کے ساتھ ہی یہ بھی ذکر کرتے جائیں کہ بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ مسجد میں بلکہ دورانِ نماز میں بھی ٹک سے انگلیاں چٹخا لیتے ہیں،یعنی انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالا اور دونوں ہاتھوں کو پیچھے کی جانب دبا دیا،تو ایسا کرنے سے ان سب میں یا اکثر میں سے ٹک ٹک کی آواز پیدا ہوگی اور اس مجموعی انداز کے علاوہ تمام انگلیوں کو ایک ایک کرکے بھی یہ آواز پیدا کی جاتی ہے،کیونکہ کسی انگلی کو اس کے بنیادی جوڑ کے قریب سے پکڑ کر پیچھے کو دبایا جائے تو اس سے چٹخنے کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ یہ فعل بھی مسجد میں اور خصوصاً نماز کے دوران میں مکروہ شمار کیا گیا ہے،اس کی کراہت کے لیے بعض احادیث و آثار سے استدلال کیا جاتا ہے،جن میں ایک مسند احمد،سنن دارقطنی،سنن کبریٰ بیہقی اور معجم طبرانی میں ہے،جس میں ہے: {إِنَّ الضَّاحِکَ فِي الصَّلَاۃِ وَالْمُلْتَفِتَ وَالْمُفَقِّعَ أَصَابِعَہٗ بِمَنْزِلَۃٍ وَّاحِدَۃٍ}[2] ’’نماز میں ہنسنے،اِدھر اُدھر جھانکنے اور انگلیاں چٹخانے والے سب ایک جیسے ہی ہیں۔‘‘ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کے ایک راوی زیّان بن فائد کے بارے میں کہا ہے کہ وہ غیر قوی ہے۔اسی موضوع کی ایک حدیث سنن ابن ماجہ میں بھی مروی ہے،جس میں ہے:
Flag Counter