Maktaba Wahhabi

686 - 699
{إِنَّ التَّشْبِیْکَ مِنَ الشَّیْطَانِ وَإِنَّ أَحَدَکُمْ لَا یَزَالُ فِي صَلَاۃٍ مَا دَامَ فِي الْمَسْجِدِ حَتّٰی یَخْرُجَ مِنْہٗ}[1] ’’یہ انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالنا شیطانی فعل ہے اور تم میں سے کوئی جب تک مسجد میں رہے،وہ نماز ہی میں شمار ہوتا ہے،جب تک کہ وہ وہاں سے نکل نہ جائے۔‘‘ سنن ابو داود،ترمذی،ابن ماجہ،صحیح ابن حبان اور مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے: {أَنْتَ فِيْ صَلَاۃٍ مَا انْتَظَرْتَ الصَّلَاۃَ}[2] ’’تم جب تک نماز کے انتظار میں رہو گے تم ایسے ہی ہوگے جیسے نماز ہی پڑھ رہے ہو۔‘‘ ان ارشاداتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پتا چلتا ہے کہ گھر سے نکلنے سے لے کر مسجد سے نکلنے تک کسی بھی موقع پر ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل نہیں کرنا چاہیے،دوسرے یہ کہ جب تک کوئی شخص کسی نماز کے انتظار میں مسجد ہی میں بیٹھا رہے،اس کے لیے اتنا ثواب لکھا جاتا ہے،جتنا اس کے لیے لکھا جاتا ہے،جو اس عرصے میں نماز ہی میں مشغول رہے،اسی لیے اس عرصے میں اس فعل کو ممنوع و مکروہ قرار دیا گیا ہے۔ کراہت یا ممانعت کی حکمتیں: اس فعل کے مکروہ قرار دیے جانے کی حکمت کے بارے میں پانچ مختلف اقوال ملتے ہیں: 1۔ یہ ایک کارِ عبث اور لا یعنی فعل ہے۔ 2۔ اختلاف سے مشابہت رکھنے والا فعل ہے۔ 3۔ اس میں شیطان سے مشابہت پائی جاتی ہے،جیسا کہ حدیث گزری ہے۔ 4۔ یہ انداز خشوع و خضوع کے منافی ہے۔ 5۔ اس طرح نیند کا غلبہ ہوجاتا ہے اور وضو ٹوٹنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ نے ’’ریاض الصالحین‘‘ میں لکھا ہے: ’’اگر کوئی شخص اپنے گھٹنوں کے گرد باہیں ڈالے،انگلیوں میں انگلیاں پھنسائے،گوٹھ مار
Flag Counter