Maktaba Wahhabi

485 - 699
کہ اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھ لوں،جب کہ کسی دوسری جگہ نماز پڑھنا ممکن نہ ہو تو انھوں نے فرمایا:نہیں اور پوچھا گیا کہ اگر میں باڑے کی زمین پر کپڑا ڈال لوں تب؟ فرمایا:پھر بھی نہیں۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی کہا ہے کہ اونٹوں کے باڑے میں نماز جائز نہیں اور جمہور کا کہنا ہے کہ اگر نجاست موجود نہ ہو تو مکروہ ہے اور اگر نجاست موجود ہو تو پھر حرام ہے،لیکن جمہور کی یہ بات محققین کے نزدیک درست نہیں،کیوںکہ اس ممانعت کی وجہ نجاست نہیں۔اگر نجاست ہوتی تو پھر اونٹ اور بکری میں فرق کیا ہے؟ ممانعت کی حکمت: اس ممانعت کی حکمت میں اہلِ علم کے کئی اقوال ہیں۔امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں لکھا ہے کہ اس ممانعت(اور ان کے نزدیک کراہت)کا سبب اونٹوں کا بدک جانا اور نمازی کو نقصان پہنچانے کا خدشہ وغیرہ ہے۔[1] جب کہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ بکریاں جنتی جانور ہیں اور اونٹ کی تخلیق شیطان سے ہوئی ہے۔[2]اور بکری کا گوشت کھا نے کے بعد نماز کے لیے از سر نو وضو کرنے کی ضرورت نہیں،لیکن اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد نماز کے لیے وضو کرنے کا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے اور اس کی علت و سبب بھی اونٹ کا شیطان میں سے ہونا ہی ہے،جیسا کہ اس موضوع کی تفصیل اور اعلام الموقعین کے حوالے سے اس علت و سبب کا تذکرہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی زبانی مسائلِ وضو میں بھی کیا جا چکا ہے۔[3] علامہ ابن قیم رحمہ اللہ،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور امام شوکانی رحمہ اللہ کی تصریحات کی رو سے اونٹوں کے باڑے میں شیطانوں کے اڈے یا ڈیرے ہوتے ہیں،اس لیے وہاں نماز پڑھنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔اونٹوں کے شیطان فطرت ہونے کا ثبوت تو خود احادیث میں بھی موجود ہے۔چنانچہ مسند احمد میں حضرت عبداﷲ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: {لَا تُصَلُّوْا فِيْ أَعْطَانِ الْإِبِلِ فَإِنَّھَا خُلِقَتْ مِنْ الْجِنِّ،أَلَا تَرَوْنَ إِلَیٰ عُیُوْنِھَا
Flag Counter